پاک بھارت ممکنہ ایٹمی جنگ ‘ دنیا کی90 فیصد آبادی ختم ہوجائے گی. امریکی ماہرین

جنگ کوئی تفریح نہیں‘کیا دونوں ملک نتائج کے لیے تیار ہیں. را کے سابق سربراہ کا انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 23 فروری 2019 12:48

پاک بھارت ممکنہ ایٹمی جنگ ‘ دنیا کی90 فیصد آبادی ختم ہوجائے گی. امریکی ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 فروری۔2019ء) امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں دنیا کی90 فیصد آبادی ختم ہونے کا خدشہ ہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں پوری دنیا دو ہفتوں میں جوہری دھویں کی لپیٹ میں آ جائے گی اور 90 فیصد آبادی بھوک سے ختم ہو جائے گی اور تہذیب ختم ہو جائے گی. پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ملک اور نیوکلیئر طاقت ہیں لیکن دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات کشیدہ رہنے کی وجہ سے اکثر ہم جوہری جنگ کی باتیں سننے کو ملتی ہیں.

(جاری ہے)

امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو چھوٹی سی نیوکلیئر طاقتیں جن کے پاس ہیرو شیما پر گرائے گئے بم کے برابر چند سو جوہری ہتھیار ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں دوسرے ممالک کو بھی اس کے غیر ارادی نتائج بھگنا پڑیں گے. دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کوئی تفریح نہیں اس لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ چنا جائے.

اے ایس دولت نے کہا کہ حکومت نے اعلان کیا کہ فوج کو کلی اختیار دے دیا ہے لیکن یاد رہے کہ اس دور میں جنگ نہایت بھیانک ہوچکی ہیں مجھے یقین ہے کہ جنگ کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں. انہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کے بادل چھا گئے تھے اور شاید صورتحال زیادہ سنگین تھی لیکن اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جنگ کا راستہ نہیں چنا چنانچہ نریندر مودی کو بھی اپنے آپشنز پر غور کرنے کی اور اعلیٰ حکام کو جنگ کے نتائج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ جنگ کوئی تفریح نہیں.

انہوں نے کہا کہ 1971 کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے. لیکن اگر لاہور پر بم گرایا گیا یا امرتسر پر بمباری کی گئی یا پھر مظفرآباد پر بم حملہ کیا گیا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟ کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں یہ 1971 والے نہیں.

اے ایس دولت جوکہ اسابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کے مشیر بھی رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نے اس سے کہیں زیادہ بری صورتحال کا سامنا کیا تھا جس میں کارگل آپریشن، پارلیمنٹ پر حملہ اور بھارتی ہوائی جہاز کو اغوا کر کے قندھار لے جانا شامل ہے لیکن انہوں نے تمام معاملات کو تحمل سے سنبھالا. را کے سابق سربراہ نے کانگریس رکن اسمبلی نوجوت سدھو کے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملنے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سدھو جنرل باجوہ سے اسی طرح ملے جس طرح پنجابی ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اور یہاں تو دونوں صرف پنجابی بھی نہیں بلکہ ہمارے ایک جٹ سکھ کی دوسرے ملک کے جٹ سے ملاقات تھی.

اے ایس دولت نے کہا کہ جب آپ بات چیت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو مطلب آپ اپنی راہیں مسدود کررہے ہیں‘ جس کی وجہ سے ہم دوبارہ تشدد کی طرف جارہے ہیں، دنیا میں شاید ہی کوئی دراندازی کا معاملہ طاقت اور ہتھیاروں کے استعمال سے حل ہوا ہو. دوسری جانب سابق بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے بھی ایک انٹرویو میں اسی قسم کے سوالات کے جواب میں کہا کہ میں پلوامہ سانحے کی مذمت کرتا ہوں لیکن مبینہ حملہ آور بھارتی اور کشمیری تھا کوئی پاکستانی نہیں.

چدم برم نے کہا کہ حملہ آور نے جیش محمد سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا ہوسکتا ہے یہ سچ ہو لیکن اگر نوجوان عسکریت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں تو اس کا مطلب جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، ہمیں کشمیری عوام کے دل و دماغ جیتنے کی ضرورت ہے.