پاکستان غیرریاستی عناصر کو ملک اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیگا،وزیر خارجہ

بھارتی پائلٹ کی رہائی کسی دباؤ یا مجبوری کا نتیجہ نہیں،شدت پسند گروہوں کیخلاف حکومت کارروائی ارادہ رکھتی ہے ،پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال اب بھی سنگین ہے، شاہ محمود قریشی کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

ہفتہ 2 مارچ 2019 13:28

پاکستان غیرریاستی عناصر کو ملک اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 مارچ2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان غیرریاستی عناصر کو ملک اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیگا،شدت پسند گروہوں کیخلاف حکومت کارروائی ارادہ رکھتی ہے ،بھارتی پائلٹ کی رہائی کسی دباؤ یا مجبوری کا نتیجہ نہیں،پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال اب بھی سنگین ہے ، دونوں ممالک کی فضائیہ متحرک اور ہم ہائی الرٹ ہیں ، پروازیں بند ہیں ،ْ امید ہے بھارتی حکمران صورتحال کا ادراک کرینگے،کیا ایک دوسرے پر میزائل چلا کر مسائل حل ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں، صرف بات چیت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، شواہد دے کر اور حل تلاش کرکے ہی آگے بڑھاجاسکتا ہے، ماضی کی بات کریں گے تو پھر دونوں طرف انگلیاں اٹھیں گی،ہم کشیدگی میں کمی لانا چاہتے ہیں ،پھر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہنا ہے، ہم ہر جائز بات سننے کیلئے آمادہ ہیں،پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں، کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے ٹھوس شواہد ہونا لازم ہے۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ اگر بھارت نے پاکستان کی بات غور سے سمجھی ہوتی توصورتحال یہ نہ ہوتی۔انہوںنے کہاکہ ہم نے بھارت سے ٹھوس شواہد دینے کیلئے کہاتھا، ہم نے تعاون کی بات کی تھی۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے بھارت سے کہا کہ آئیے بات کرتے ہیں، مذاکرات ہی آگے بڑھنے کی دانشمندانہ راہ ہے۔

انہوںنے کہا کہ ہم ہمسائے اور جوہری قوت ہیں، کیا ہم جنگ کے متحمل ہوسکتے ہیں یہ خودکشی ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی بہت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ بھارتی وزیراعظم نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ صورتحال اب بھی سنگین ہے، دونوں ممالک کی فضائیہ متحرک اور ہم ہائی الرٹ پر ہیں، پروازیں بند ہیں۔

انہوںنے کہاکہ امید ہے کہ بھارتی صورتحال کا ادراک کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان امن اور استحکام چاہتا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان میں نئی حکومت نئی سوچ نیا ارادہ لے کر آئی ہے، ہم مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ کیا ایک دوسرے پر میزائل چلا کر مسائل حل ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں، صرف بات چیت سے ایسا ہوسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ شواہد دے کر اور حل تلاش کرکے ہی آگے بڑھاجاسکتا ہے،ابھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ جیش محمد واقعہ میں ملوث ہے، ان کے اعتراف کے بارے میں بھی ابھی ابہام ہے۔

انہوںنے کہاکہ تنظیم کے لوگ اس سے انکار کررہے ہیں، اس پر کنفیوژن ہے، متضاد اطلاعات ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے تنظیم کالعدم قرار دی، بہاولپور میں نام نہاد مرکزی دفتر کو پنجاب حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ انہوںنے کہاکہ بھارتی دعویٰ کررہے تھے کہ یہاں تربیتی کیمپ ہے، سارے میڈیا اور دنیا نے خود حقیقت دیکھ لی کہ ایسا نہیں۔ انہوںنے کہاکہ بھارت نے دعوی کیا تھا کہ اس نے تین کیمپوں کو نشانہ بنایا، وہ کہاں ہیں ساڑھے تین سو لاشیں کہاں ہیں ۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ دعوی ٰتھا کہ پچیس منٹ تک فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، یہ بھی سچ نہیں نکلا، خود بھارت میں لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ انہوںنے کہاکہ میں نئی حکومت کی سوچ، اپروچ اور پالیسی کی بات کرتا ہوں جو بہت واضح ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم پاکستانی سرزمین کسی گروپ، تنظیم کو بھارت سمیت کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔

انہوں نے کہاکہ ماضی کی بات کریں گے تو پھر دونوں طرف انگلیاں اٹھیں گی،اس موقع پر ہم کشیدگی میں کمی لانا چاہتے ہیں یا پھر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارتی میڈیا کا ایک حصہ نہایت غیرذمہ دارانہ کردار ادا کررہا ہے، وہ جنگ بھڑکا رہے ہیں، خطے میں خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم ہر جائز بات سننے کیلئے آمادہ ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں، کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے ٹھوس شواہد ہونا لازم ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہی بھارت سے کہا ہے کہ ٹھوس شواہد دیں جس پر وہ کیس تیار ہوسکے جس کو پاکستان کے عوام کے سامنے ثابت کیاجاسکے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت نے گزشتہ روز ہی ڈوزئیر دیا ہے، اگر بھارت اس پر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم اس پر بھی تیار ہیں۔

انہوںنے کہاکہ روسی وزیر خارجہ نے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ روسی وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لئے ہم پلیٹ فارم مہیا کرنے پر آمادہ ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس پیشکش پر آمادہ ہیں، بھارت اپنا فیصلہ کرسکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے اس معاملے میں اپنے کردار کی پیشکش کی، چین اور یورپی یونین بھی کردار ادا کررہے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بہت مثبت بات کی ہے، میں اس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں، مغربی سرحد کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں جہاں صورتحال انتہائی حساس ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سترہ سال کے بعد افغانستان میں امن کے بہت قریب ہیں، یہ تاریخی موقع ہے، ہم توجہ نہیں ہٹانا چاہتے جو خطرناک ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ نریندر مودی جس انتہاء پر جارہے ہیں، پھر اس سے واپسی آسان نہیں ہوگی، فیصلہ اب بھارت کے عوام نے کرنا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ بھارت کے عوام جس کو بھی منتخب کریں گے، ہم اس سے بات کریں گے۔ ویزر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر دنیا کو دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں، مالی وجانی نقصان برداشت کرچکے ہیں، دنیا کے ساتھ مل کر اس کے خلاف لڑرہے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان غیرریاستی عناصر کو ملک اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیگا اور وہ شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کسی ملیشیا یا کسی جنگجو تنظیم کو ہتھیاروں کے استعمال اور ان کے ذریعے دہشتگردی کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دیں گے اگر کوئی گروپ ایسا کرتا ہے تو پاکستان کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم غیر ریاستی عناصر کو اپنے ملک اور خطے کو اس دہانے پر کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے،پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پر انڈین پائلٹ کو رہا کرنے کیلئے نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی مجبوری۔انہوںنے کہاکہ ہم انھیں یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے دکھ میں اضافہ نہیں چاہتے، ہم آپ کے شہریوں سے بدسلوکی نہیں چاہتے، ہم تو امن چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے امن کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے۔کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دہشتگرد حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جیش محمد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ ہر معاشرے میں شدت پسند عناصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کیا بھارت میں ایسے عناصر نہیں ہیں، گجرات میں جو کچھ ہوا، کس نے کیا، کس کی ایما پر ہوا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان ماضی میں نہیں جانا چاہتا لیکن اگر ماضی میں گئے تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کیسے ہوا، پٹھان کوٹ اور اوڑی میں کیا ہوا، ایک لمبی داستان ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں جیش محمد کی شدت پسندانہ کارروائیوں کے بارے میں شواہد دیے گئے تو کارروائی ہو گی۔