سات مزید شامی وزراء کے نام یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل

اسد حکومت میں نومبر میں شامل کیے گئے وزراء کے یورپی ممالک میں اثاثے منجمد ،سفری پابندیاں عاید

منگل 5 مارچ 2019 13:04

سات مزید شامی وزراء کے نام یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل
برسلز(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مارچ2019ء) یورپی یونین کے رکن ممالک نے شام کے وزیر داخلہ سمیت سات وزراء کے نام تنظیم کی پابندیوں کا شکار افراد اور اداروں کی فہرست میں شامل کر لیے ،ان پر شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی شہریوں کے خلاف جبر وتشدد کی کارروائیوں میں معاونت اور کردار پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق تنظیم کے 28 رکن ممالک پر مشتمل یورپی کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ بشار الاسد کی حکومت میں نومبر میں مقرر کیے گئے ان وزراء کے اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے اور وہ یورپ کا سفر نہیں کرسکیں گے۔

کونسل نے مزید کہا کہ ان وزراء کے نام شامی نظام اور اس کے حامیوں کے خلاف تعزیری اقدام کا ہدف بننے والے افراد اور اداروں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کے ناموں کی شمولیت کے بعد یورپی یونین کی پابندیوں کا شکار ان شامی افراد کی تعداد 277 ہوگئی ہے۔ان پر شام میں شہریوں کے خلاف اسد رجیم کی ’’ متشدد جبرواستبداد‘‘ کی کارروائیوں میں کردار پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔

جن سات شامی وزراء کو یورپی یونین کی ممنوعہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے ،ان کے نام اور عہدے یہ ہیں: وزیر داخلہ میجر جنرل خالد الرحمون ، وزیر سیاحت محمد رامی رضوان مارتینی ، وزیر تعلیم عماد موفق الذہب ، اعلیٰ تعلیم کے وزیر بسام بشیر ابراہیم ، وزیر مکانات اور تعمیرات سہیل محمد عبداللطیف ، وزیر برائے مواصلات اور ٹیکنالوجی ایاد محمد الخطیب اور وزیر صنعت محمد معین زین العابدین جذبہ۔

یورپی یونین نے شام سے تعلق رکھنے والے 72 اداروں کے اثاثے بھی منجمد کیے ہیں۔ تنظیم نے یکم دسمبر 2011ء کو شامی رجیم کی اپنے ہی عوام کے خلاف جبر وتشدد کی کارروائیوں کے بعد اس ملک کے عہدے داروں اور اداروں کے خلاف پابندیاں عاید کی تھیں۔ان پابندیوں کا ہر ایک سال کے بعد جائزہ لیا جاتا ہے۔ان پر آیندہ نظرثانی یکم جون کو کی جائے گی۔یورپی یونین نے شامی تیل کی تجارت اور شام میں سرمایہ کاری پر بھی پابندی عاید کررکھی ہے اور تنظیم کے رکن ممالک میں شامی افراد اور اداروں کے اثاثے منجمد کررکھے ہیں۔

شام کو ایسے آلات اور ٹیکنالوجی کی برآمد پر بھی قدغنیں عاید ہیں جن سے حکومت اپنے ہی عوام کو دبا سکتی ہے یا انٹرنیٹ یا ٹیلی فون کالوں میں کوئی رخنہ ڈال سکتی ہے یا ان کی نگرانی کرسکتی ہے۔