کراچی میں زمینوں کی خلاف ضابطہ الاٹمنٹ اور بندر بانٹ کا اپنی نوعیت کا منفرد اور حیران کن کیس دستاویزات کے ساتھ سامنے آگیا

سیاسی سفارش پرسپرہائی وے کرا چی میں 1300ایکڑ زمین ضلع وسطی کی کے بی آرکے متبادل جاری کی گئی نیب نے میگا لینڈ اسکینڈل کی تحقیقات شروع کردی بورڈ آف ریونیو سندھ نے قواعد کے برخلاف 45ایکڑ زمین کے بدلے 1300ایکڑ سے زائد زمین الاٹ کی جبکہ ملکیت کا دعویٰ اور خریدوفروخت بھی مشکوک تھی

پیر 11 مارچ 2019 15:12

کراچی میں زمینوں کی خلاف ضابطہ الاٹمنٹ اور بندر بانٹ کا اپنی نوعیت ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 مارچ2019ء) کراچی میں زمینوں کی خلاف ضابطہ الاٹمنٹ اور بندر بانٹ کا اپنی نوعیت کا منفرد اور حیران کن کیس دستاویزات کے ساتھ سامنے آگیا۔بورڈ آف ریونیو سندھ نے قواعد کے برخلاف 45ایکڑ زمین کے بدلے 1300ایکڑ سے زائد زمین الاٹ کی جبکہ ملکیت کا دعویٰ اور خریدوفروخت بھی مشکوک تھی سیاسی سفارش پرسپرہائی وے کرا چی میں 1300ایکڑ زمین ضلع وسطی کی کے بی آر (خواستی بروہی ریونیو)کے متبادل جاری کی گئی نیب نے میگا لینڈ اسکینڈل کی تحقیقات شروع کردی۔

45ایکڑ مشکوک ملکیت والی زمین کے بدلے 1300ایکڑ سے زائدزمین کئی عشروں بعد پیپلزپارٹی کے دور میں کلیم کی گئی اور سندھ حکومت نے سیاسی سفارش پر زمین الا ٹ کی پنی نوعیت کے حیران کن کیس میں سابق وزیراعلی قائم علی شاہ،وزیراعلی مرادعلی شاہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کے معتمد خاص سینیٹر قیوم سومروبھی نیب تحقیقات کی زد میں آسکتے ہیں سابق چیف سیکریٹریز رضوان میمن اور صدیق میمن سمیت بورڈ آف ریونیو،لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کے خلاف بھی تیرہ سو ایکڑ سے زائد زمین کی خلاف ضابطہ الاٹمنٹ کے معاملے میں کردار کا تعین تحقیقاتی ادارے کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

خلاف ضابطہ الاٹ کی گئی زمین کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 17ارب روپے سے زائد ہوسکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں انتہائی بیش قیمت سرکاری زمین کی خلاف ضابطہ اور مشکوک الاٹمنٹ کا حیران کیس سامنے آیا ہے کراچی کے ضلع وسطی کے علاقے بفرزون میں قائم کے بی آرسوسائٹی(خواستی بروہی ریونیو)اسکیم کی 45ایکڑ زمین جو 1962کے بعد سے حکومت کے ریکارڈ میںسرکاری زمین ہے اور کے بی آر کی زمین پر ہی اسووقت کے ڈپٹی کمشنر نے کے بی آر سوسائٹی بنائی جبکہ جب کراچی میں ضلع وسطی بنایاگیا تو ضلع وسطی میں کے بی آر کی زمین حکومتی ملکیت ہونے کے سبب ہی اس 45ایکڑ زمین پر ڈپٹی کمشنر وسطی کا دفتر،واٹر بورڈ کا ہائیڈرینٹ قائم کیاگیا تاہم پیپلزپارٹی کے برسراقتدار آتے ہی احمد اللہ نامی شخص کے پوتے سعد احمد اللہ نے دعویٰ کیاکہ کے بی آر کی 45ایکڑ زمین انکی ملکیت ہے جبکہ 1994 میںعدالتی ناظر ،سرکاری املاک کی تعمیر اور دیگر دستاویزات سے بھی ثابت تھا کہ زمین کسی فرد کی نہیں حکومت کی ملکیت ہے تاہم حیران کن طورپر کے بی آر کی 45ایکڑ زمین کی مشکوک ملکیت کے بدلے میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی سفارش اور دبائوپر احمد اللہ نامی شخص کو متبادل زمین الاٹ کرنے کا فیصلہ ہوا وزیراعلی کو محکمہ بورڈ آف ریونیو اور لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ سمیت متعلقہ مختارکار نے قانونی ودستاویز ی شواہد کے برخلاف متبادل زمین دینے کی سفارش کردی اور یوں سپرہائی وے پر45 ایکڑ زمین کے بدلے 1300ایکڑانتہائی بیش قیمت زمین سپرہائی وے پر الاٹ کی گئی۔

دستیاب دستاویز او ر بورڈآف ریونیو حکام سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق 1300ایکڑ سے زائد زمین کی الاٹمنٹ میں قواعد کو نظر انداز کیاگیا اور سیاسی بنیادوں پر سرکاری زمین دی گئی اس حوالے سے قومی احتساب بیورو میں بھی سرکاری زمین کے اس میگااسکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں 2012 سے کے بی آر کے بدلے میں سپرہائی وے پر زمین الاٹ کرنے کے لیے کاغذی کاروائی شروع ہوئی اور پھر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کی کراچی سپرہائی وے پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی بااثر سیاسی افراد کے دباو وسفارش پر الاٹ کردی گئی اس حوالے سے دستیاب دستاویزات اور متعلقہ محکموں کے حکام سے ملنے والی معلومات کے مطابق سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کا اپنی نوعیت کا حیران کن کیس کئی حوالوں سے مشکوک اور تحقیق طلب ہے کے بی آر کی45ایکڑجس زمین کے بدلے میں زمین مانگی گئی اسکی ملکیت اور خریدوفروخت کا دعوی اور دستاویزت سرکاری ریکارڈ سے مختلف ہیں ۔

مشکوک ملکیتی دستاویز پر سندھ حکومت نے کلیم قبول کرلیا جبکہ 45ایکڑ زمین کے بدلے میں تیرہ سو سے زائد ایکڑ زمین کیوں الاٹ کی گئی تحقیقاتی ادارے اس کیس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے رہے ہیں اور تحقیقات کی جارہی ہیں شبہ ہے کہ سرکاری زمین کی اس مشکوک اور مبینہ طورپر خلاف ضابطہ الاٹمنٹ کے پیچھے بھی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون جو پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کے قریبی رہے ہیں انکا مالی وکاروباری مفاد وابستہ ہے جبکہ قواعد کے برخلاف الاٹ کی گئی ۔

1300 سے زائد ایکڑ زمین کے اس کیس میں سابق وزیراعلی قائم علی شاہ ،وزیراعلی مرادعلی شاہ اور آصف علی زرداری کے قریبی سینیٹر قیوم سومرو سے بھی پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے سندھ کے دوسابق چیف سیکریٹریز رضوان میمن اور صدیق میمن جو بورڈ آف ریونیو میں اہم عہدوں پر فائز رہے ان سے بھی اس میگا کیس سے متعلق تحقیقا ت ہونگی سرکاری زمین کی اس مبینہ طورپر خلاف ضابطہ الاٹمنٹ کے اس کیس میں ملیر اور ضلع وسطی کے ڈپٹی کمشنرز اور ریونیو افسران سے بھی تحقیقات کی جارہی ہے جبکہ ممبر لینڈ یوٹیلائزیشن آفتاب میمن جن کو نیب نے گرفتارکرلیا ہے اس کیس سے متعلق بھی انکوائری کی جائیگی۔