مقبوضہ کشمیرمیں جماعت اسلامی پرپابندی کے خلاف خیبرپختونخوااسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور

جمعہ 15 مارچ 2019 20:22

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مارچ2019ء) خیبرپختونخوااسمبلی نے مقبوضہ کشمیرمیں جماعت اسلامی پرپابندی ہٹانے کے حوالے سے قراردادکثرت رائے سے منظورکرلی اے این پی نے قراردادکی مخالفت یاحمایت میں حصہ نہیں لیا تاہم پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے قراردادکی تائید کی۔صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے رکن عنایت اللہ نے قراردادپیش کی کہ مقبوضہ کشمیرمیں جماعت اسلامی کیخلاف کریک ڈائون ہورہاہے اسکے دفاترسیل کردئے گئے ہیں جماعت اسلامی عوامی کی خدمت کی جدوجہدکررہی ہے اسلئے یہ اسمبلی وفاق سے مطالبہ کرے کہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر لگنے والی پابندی ہٹانے،اسکے ضبط شدہ اثاثہ جات کی بحالی اور گرفتارکارکنوں کی رہائی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

(جاری ہے)

بعدازاں قراردادپربحث کے دوران عنایت اللہ نے کہاکہ پلوامہ حملے کے بعد پاک انڈیاکی کشیدگی پیداہوئی جسکے تناظرمیں ایک ہزارمساجداور34مدارس بندکئے گئے اسکے علاوہ جماعت اسلامی کے چار ارب کے اثاث ے ضبط ہوئے جس کی مقبوضہ کشمیرکی سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے جماعت اسلامی کوئی انتہاپسندتنظیم نہیں وہ ایک سیاسی تنظیم ہے جوکہ عوامی خدمت کیلئے پرامن جدوجہدکررہی ہے پلوامہ حملے کیساتھ نتئی کرکے جماعت اسلامی پرپابندی لگائی گئی بھاری افواج کشمیریوں پرظلم وزیادتی کررہی ہے ،اے این پی کے سردارحسین بابک نے کہاکہ ایک ریاست کو دوسری ریاست میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے ہم اس قراردادپررائے شماری کے وقت ہاں یا ناکاجواب نہیں دینگے ۔

اپوزیشن لیڈراکرم خان درانی،پی پی کی نگہت اورکزئی اورشیراعظم وزیر،ن لیگ کے سرداراورنگزیب نلہوٹھا نے جماعت اسلامی پرلگنے والی پابندی کی مذمت اورقراردادکی حمایت کی ۔صوبائی وزیر قانون سلطان محمدنے کہاکہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے مودی نے صرف الیکشن جیتنے کی خاطر جنگی جنون پیدا کیا انڈیاخودکوجمہوری ملک کہتاہے لیکن دونیوکلیئربم رکھنے والے ممالک میں ایسی کشیدگی پیدا کی گئی ہمیں اپنی افواج پرفخر ہے جنہوں نے بھرپورجواب دیابھارتی حملے کے بعد ملک میں حکومت اورتمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پراکٹھی ہوئی ۔

جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیرمیں کام کررہی ہے اگر سیاسی جماعتوں کو دبایاجائیگاتوکشمیرمیں ناخوشگوارحالات پیداہونگے بھارت اپنے گریبان میں جھانکیں سیاسی جماعتوں پرپابندیاں لگاناناقابل برداشت ہے۔