کرائسٹ چرچ حملہ، دنیا بھر میں مذمت، بعض بھارتی حلقے خوش

بھارت میں رواج بن گیا کہ دہشتگرد واقعات سے مسلمانوں کو جوڑا جائے، پھرمرکز پاکستان بنایا جائے، کوئی شک نہیں بعض حلقے بہت خوش ہیں، وہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ جواہرلعل نہرویونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر تنویرفضل

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 16 مارچ 2019 18:23

کرائسٹ چرچ حملہ، دنیا بھر میں مذمت، بعض بھارتی حلقے خوش
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔16 مارچ 2019ء ) کرائسٹ چرچ حملے کی دنیا بھر میں مذمت جبکہ بعض بھارتی حلقے خوشی منا رہے ہیں، جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے ماہر عمرانیات ڈاکٹر تنویر فضل کا کہنا ہے کہ کوئی شک نہیں بعض حلقے خوش ہیں،اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، بھارت میں رواج بن گیا کہ دہشتگردی کے واقعے سے مسلمانوں کو جوڑا جائے، مرکزپاکستان بنایا جائے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کرائسٹ چرچ مساجد میں ہونے والے حملے اور اس پر بعض جگہ خوشی منانے کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے دارالحکومت دہلی میں واقع جواہر لعل نہرویونیورسٹی میں استاد اور ماہر عمرانیات ڈاکٹر تنویر فضل نے کہا کہ سوشل میڈیا کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔ اول تو سارے اکاؤنٹس ویریفائڈ نہیں ہیں اور بہت سی باتیں فیک اکاؤنٹس سے پھیلائی جاتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض حلقے میں اس پر خوشی پائی جاتی ہے اور وہ اس کے اظہار سے گریز بھی نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ انتہا پسندی یا دہشتگردی کے حوالے سے اب تک جو بیانیہ تھا وہ مغربی بیانیہ تھا اور ہم سب کہیں نہ کہیں اسے من و عن اٹھا چکے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں انڈیا میں جو ایک ڈسکورس چل نکلا ہے وہ یہ ہے کہ دہشتگردی کے واقعے سے مسلمانوں کو جوڑا جائے اور اس کا مرکز پاکستان کو بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس ضمن میں کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا لیکن ہمارے بعض صحافی اور دانشور ایسے ہیں جو اس خیال کو ظاہر کرنے میں ذرا بھی گریز نہیں کرتے کہ دہشتگردی اور اسلام میں فرق نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں اس جانب بھی اشارہ کیا کہ جب یورپی ممالک یا کسی اور جگہ حملہ ہوتا ہے اور اس میں مسلمان شامل ہوتے ہیں تو اسے دہشت گردانہ حملہ کہا جاتا ہے لیکن جب کوئی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے تو اسے مخبوط الحواس یا جنونی شخص کہا جاتا ہے۔ یہ (لون وولف) تنہا بھیڑیا بھی ہوسکتا ہے یا پھر اس کے پس پشت کوئی منظم گروہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ انگریزی میں اس کے لیے ایک لفظ وکیریئس پلیزر ( vicarious pleasure) ہے۔

یعنی ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے خوش ہیں کہ دنیا میں ان کے ہم نوا افراد ہیں اور ان پر کوئی آنچ آئے بغیر وہ ان کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دنوں جس طرح سے ’’بیف لنچنگ‘‘ اور دوسرے طرح کا مسلم مخالف تشدد کا ماحول بنا یہ اس کا مظہر ہے۔ رضوان قیصر نے مزید کہا کہ ہندوستان میں اسلام فوبیا کا ماحول نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہاں مسلمان ہزاروں سال سے آباد ہیں۔

یہاں جو تشدد کا ماحول بنا ہے تو ان کو لگتا ہے کہ ان کا کام کسی اور نے کردیا اس لیے وہ اس کا جشن منا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ساری دنیا میں ایک نفرت کا ماحول نظر آتا ہے۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ امریکہ میں کسی یونیورسٹی میں کسی سکول میں کسی نے معصوموں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ نیوزی لینڈ واقعے کے حملہ آور آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں حالیہ برسوں میں مذہبی اور نسلی رجحان پروان چڑھتا نظر آیا ہے جس میں یہ دیکھا گيا ہے کہ انہوں نے ہندوستانی نژاد کے لوگوں پر بھی حملہ کیا ہے۔

واضح رہے گزشتہ روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نماز جمعہ میں مسلح دہشتگرد کی فائرنگ کے نتیجے میں 49 افراد جاں بحق اور48 سے زائد زخمی ہوگئے۔ تین منٹ تک مسجد میں فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور مرکزی دروازے سے باہر نکلا جہاں اس نے گاڑیوں پر بھی فائرنگ شروع کر دی، حملہ آور جدید ہتھیاروں سے لیس اور پیٹرول بموں سے بھری گاڑی کیساتھ پہنچا تھا جو ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے واردات کی ویڈیو لائیو اسٹریمنگ کرتا رہا۔ سکیورٹی اداروں کی ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اپنی شناخت آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ کے نام سے کی ہے۔ حملہ آور وردی میں ملبوس تھا،جس کی عمر28 سال بتائی گئی ہے۔ حملہ آور کو آج عدالت میں پیش کر کے تفتیش کیلئے ریمانڈ لیا گیا ہے۔