پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اورعدالت دونوں کیلئے ٹھیک نہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے 24 ارب روپے اراکین قومی اسمبلی کو دینے کے خلاف (ن)لیگی رہنما کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

پیر 18 مارچ 2019 18:54

پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اورعدالت دونوں کیلئے ٹھیک ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مارچ2019ء) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اور عدالت دونوں کے لیے ٹھیک نہیں، جو کام پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے وہ کام آپ عدالت سے نہ کرائیں۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے 24 ارب روپے اراکین قومی اسمبلی کو دینے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

لیگی رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں سے 24 ارب روپے نکال کر ارکان اسمبلی کو فراہم کیے گئے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ رکن قومی اسمبلی ہیں، آپ کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے 'یہ عدالت چاہتی ہے پارلیمنٹ کی بالادستی برقرار رہے، یہ تفصیلات آپ پارلیمنٹ کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے تھے۔

درخواست گزار رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ وزارت سے بطور رکن قومی اسمبلی تفصیلات مانگیں جو فراہم نہیں کی گئیں اور کئی روز گزر گئے مگر وزارت منصوبہ بندی نے جواب نہیں دیا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسی درخواست عدالت سنتی ہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی پر حرف آئے گا، رکن قومی اسمبلی کے پاس بہت اختیارات ہیں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے رکن اسمبلی اپنے اختیارات استعمال کرے تو وہ پارلیمنٹ کیلئے اچھا ہے، پارلیمان کے معاملات کو عدالتوں میں نہ لائیں، جو اختیارات رکن اسمبلی کو حاصل ہیں وہ اس عدالت کے پاس بھی نہیں ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس معاملے میں حکومت ملوث ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آئین پاکستان پر مکمل طور پر عملدرآمد ہو، ہم صرف وزارت سے تفصیلات مانگ رہے ہیں۔عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کے دلائل سننے کے بعد ان کی درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔