جیریمی مکلیلن نے سفید فام انتہا پسند کی کارروائی پر مغربی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لے لیا

اپنے لیے ایسے جیون ساتھی کا انتخاب کریں جو آپ کو ایسی نظر سے دیکھے جیسے مغربی میڈیا گورے دہشتگرد کو دیکھتا ہے۔ جیریمی کا ٹویٹر پیغام

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 19 مارچ 2019 13:23

جیریمی مکلیلن نے سفید فام انتہا پسند کی کارروائی پر مغربی میڈیا کو ..
امریکہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 مارچ 2019ء) : نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر سفید فام انتہا پسند نے حملہ کیا تو مغربی میڈیا نے اسے دہشتگرد کہنے کی بجائے مسلح شخص کہا جس پر مغربی میڈیا کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سفید فام انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے لیے جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر امریکی کامیڈین جیریمی نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں مغربی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔

ٹویٹر پیغام میں جیریمی میکلیلن کا کہنا تھا کہ جب آپ اپنے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کریں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے شخص کا انتخاب کریں جو آپ میں بہترین اوصاف دیکھتا ہو، آپ کی برائیوں کو نظر انداز کرے، آپ کی غلطیوں کو بھول جائے اور صرف اور صرف آپ کی کامیابیوں کو یاد رکھے۔

(جاری ہے)

یا یوں کہہ لیں کہ جیون ساتھی کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کریں جو آپ کو بالکل ایسے دیکھتا ہو جیسے مغربی میڈیا گورے دہشتگرد کو دیکھتا ہے۔

جیریمی کے اس ٹویٹ پر انہیں خوب سراہا گیا کہ سفید فام ہونے کے باوجود انہوں نے مغربی میڈیا کی اس منافقت پر سوال اُٹھایا اور اس پر آواز اُٹھائی۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی النورمسجد اور لِین وڈ میں واقع مسجد میں 15 مارچ بروز جمعہ نماز کے دوران سفید فام انہتا پسندوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 50 افراد شہید جبکہ متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

شہید ہونے والے افراد میں 9 پاکستانی شہری بھی شامل تھے۔ ایک طرف جہاں دنیا بھر میں اس واقعہ کی پُرزور مذمت کی گئی وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس واقعہ کو لے کر نئی بحث کا آغاز ہو گیا تھا کہ آیا یہ واقعہ قتل عام ہے یا دہشتگردی۔ سوشل میڈیا صارفین نے نیوزی لینڈ میں مسجد پر ہونے والے حملے پر عالمی میڈیا کی رپورٹنگ پر اظہار تشویش بھی کیا۔

سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ مسجد پر نہتے نمازیوں کو قتل کرنے والے سفید فام شہری کو دہشتگرد کی بجائے مسلح شخص کہنا تشویشناک ہے۔ صارفین نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ اس واقعہ کو دہشتگردی کی بجائے قتل عام کیوں قرار دیا جا رہا ہے ؟ کیا صرف اس لیے کہ اس میں مرنے والوں کا تعلق کسی اور مذہب سے نہیں بلکہ اسلام سے تھا؟ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشتگردی قرار دیا تھا
جبکہ آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ ماریسن نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے۔

واضح رہے کہ سفاک حملہ آور نے نہتے نمازیوں پر گولیاں برسانے کی ویڈیو بھی فیس بُک پر لائیو نشر کی جسے فیس بُک نے ہٹا دیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے والے ممالک کی اس واقعہ پر خاموشی پر بھی آواز اُٹھائی اور کہا تھا کہ مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے لیکن اب جب خود مسلمان ہی دہشتگردی کا نشانہ بن گئے ہیں اس پر عالمی ممالک خاموش کیوں ہیں؟ دہشتگردی کے اس واقعہ پر سب کی خاموشی افسوسناک ہے۔

اس حملے سے صاف ظاہر ہے کہ دہشتگرد صرف مسلمان ہی نہیں کوئی سفید فام بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ جہاں غیر مسلم دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں وہیں مسلمان بھی دہشتگردی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ دہشتگردی کو کسی ایک مذہب یا قوم سے منسوب کر دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ عالمی میڈیا کو بھی چاہئیے کہ مساجد پر حملہ کرنے والے شخص کو ''ذہنی معذور'' یا ''مسلح شخص'' کہنے کی بجائے ''دہشتگرد'' ہی کہیں۔ اور اس واقعہ کو بھی قتل عام کی بجائے دہشتگردی قرار دیا جائے۔