اسلام آباد چڑیا گھر میں حکام کی عدم تو جہ ایک سال کے دوران شیرنی کے چار بچوں ،8نیل گائے سمیت بندر ہرن اور 48پرندے موت کے منہ میں چلے گئے

منگل 19 مارچ 2019 20:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2019ء) سی ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کے زیر اہتمام وفاقی دارالحکومت کی اہم سیر گاہ چڑیا گھر میں ناقص کارکردگی اور نا اہل افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے ایک سال کے دوران شیرنی کے چار بچوں ،8نیل گائے سمیت بندر ہرن اور 48پرندے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ ذرائع کے مطابق چڑیا گھر میں موجود ہاتھی کو ناقص غذا اور کچہ گنہ ملتا ہے جس وجہ سے ہاتھی بھی اکثر بیمار رہنے لگا مہاوت سیاسی گفتگو میں مصروف رہتا ہے جبکہ زیادہ وقت مہاوت ہاتھی کے ذریعے کمائی میں صرف کرتا ہے شیر کے لئے روزانہ منوں گوشت لایا جاتا ہے جو کہ افسران کے گھروں میں چلا جاتا ہے شیر کو بیف مٹن کے بجائے چکن کڑاہی پر گزارا کرنا پڑتا ہے ،ذرائع نے بتایا کہ پرندوں کو برٖ فلو سے بچانے والی ادویات جن کا سالانہ لاکھوں کا بجٹ دیا جاتا ہے لیکن پرندوں کو برڈ فلو سے بچانے کے لئے غیر معیاری ادویات دی جاتی ہیں جن سے فاقہ ہونے کے بجائے ہر سال سینکڑوں پرندے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ شتر مرغوں کی ہلاکت بھی برڈ فلو کی وجہ سے ہو جاتی ہے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ لاکھوں روپے مالیت کے جانور نیل گائے اور ہرن ہر ماہ غائب کر کے اعلی سیاسی و سماجی حکام کو تحفے میں دیئے جاتے ہیں جس وجہ سے چڑیا گھر کے عملے کو کوئی پوچھنے کی جرائت نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

جانوروں کی کھرلیوں پر بھی لاکھوں روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے کروڑوں روپے کے بجٹ والے چڑیا گھر کی پانی کی موٹر ہر ماہ میں دو دو ہفتے خراب رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جانوروںکو اچھی خوراک کے ساتھ پانی کی کمی کی وجہ سے متعدد بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہو اہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میںڈائریکٹر کی عدم توجہی اور کرپشن کی وجہ سے جانور موت کے منہ میں جارہے ہیں شیرنی نے تین ماہ قبل 4بچے پیدا کئے ان بچوں کی خوراک و ادویات فراہم نہ کی جا سکی جس وجہ سے یہ بچے دو ماہ کے اندر ہی مر گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر بلال نے کچھ عرصہ قبل ایک مالی بخشش الٰہی کے ذریعے نیلی گائے فروخت کر ڈالی اور اسے سرے عام گاڑی میں لوٹ کیا گیا جس وجہ سے بخشش الٰہی نامی مالی کے ہاتھ کی انگلی بھی شدید زخمی وہ گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ چڑیا گھر میں جانوروں کی کھرلیاں ٹھیکیدار کے ذریعے بنائی گئیں جن پر ٹوٹل20ہزار روپے خرچہ ہوا جبکہ چڑیا گھر افسران نے ملی بھگت سے سرکاری خزانے سے ٹھیکیدار کو لاکھوں روپے کے بل پاس کرا دیئے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جانوروں کو کئی کئی دنوں سے پانی کی فراہمی نہیں کی جاتی کیونکہ پانی سپلائی کرنے کے لئے موٹر چلانا پڑتی ہے اور موٹر عملے کی عدم توجعی کے باعث کئی کئی ہفتوں خراب رہتی ہے اور موٹر کو ٹھیک کرانے کے لئے متعدد بار لاکھوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں اس کے باوجود موٹر ٹھیک نہ ہو سکی جبکہ چڑیا گھر کے شیر کے لئے منگوائے جانے والے گوشت میں کرپشن کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی گئی اس کے باوجود تا حال کوئی انکوائری عمل میں نہیں لائی جا سکی اور نہ ہی پرندوں کی خوارک و ادویات میں خوردبرد کے حوالے سے میٹرو پولیٹن یا سی ڈی اے کی طرف سے کوئی انکوائری عمل میں لائی گی ہے۔۔