کرائسٹ چرچ حملے کے بعد زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو بیرون ملک جا کر بسنا چاہئیے

سانحہ میں شہید ہارون محمود کے اہل خانہ کا مؤقف، والدہ تاحال بیٹے کی منتظر ہیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 مارچ 2019 11:28

کرائسٹ چرچ حملے کے بعد زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو بیرون ملک جا کر بسنا ..
نیوزی لینڈ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 مارچ 2019ء) : 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی النورمسجد اور لِین وڈ میں واقع مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران سفید فام انہتا پسند نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 50 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ شہید ہونے والے افراد میں 9 پاکستانی شہری بھی شامل تھے۔ کرائسٹ چرچ حملے کے بعد دنیا بھر میں موجود مسلمان ایک دوسرے سے اظیہار یکجہتی کر رہے ہیں جبکہ غیر مسلم کمیونٹی بھی مسلمانوں کے حق میں کھڑی ہو گئی ہے جو مذہبی ہم آ ہنگی کی سب سے بڑی مثال ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ میں شہید ہونے والے ہارون محمود کے اہل خانہ کسی قسم کے خوف میں مبتلا نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا بھر کے زیادہ سے زیادہ ممالک میں جا کر بسنا چاہئیے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دنیا کی عمومی منفی رائے تبدیل ہو سکے۔

(جاری ہے)

ہارون محمود کی ہمشیرہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ نہیں تھکیں گے ، وہ لوگ تھک جائیں گے۔

کتنی دفعہ ماریں گے اور کس کس کو ماریں گے ؟ ہارون محمود کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہارون بھاگتا دوڑتا ہوا مسجد گیا اور وہاں یہ واقعہ پیش آ گیا۔ میری بہو اپنے بچوں کے ساتھ اپنی دوست کے گھر تھی۔ پھر فون آیا کہ شناخت کے لیے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی کاپی چاہئیے۔ میرے سارے بچے اور بھتیجے بھتیجیاں فون ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہارون کی کوئی خبر آجائے۔

شاید لا پتہ افراد میں ہی اُس کا نام آجائے۔ کیونکہ خبر آ رہی تھی کہ کچھ لوگ لا پتہ بھی ہیں۔ ان بچوں نے بڑی کوشش کی لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ آخری خبر صبح موصول ہوئی جس میں پتہ چلا کہ ہارون شہید ہو گیا ہے۔ ہارون نے مجھے کہا تھا کہ 3 مئی کو میری گریجویشن آ رہی ہے۔ اگر میں آپ کو ٹکٹ بھیجوں تو کیا آپ آ جائیں گی ؟ میں نے کہا کہ میں ضرور آؤں گی میرے لیے تو عزت کی بات ہے۔

یہ پروگرام بن رہے تھے ، پھر اُس نے مجھے کہا کہ میں نے چھوٹی عید یہاں پر بچوں کے ساتھ کرنی ہے۔ میں ٹکٹس دیکھ رہا ہوں کہ کیا ریٹ چل رہا ہے۔ ہارون کی والدہ نے بتایا کہ پھر میں نے سنا کہ پچیس مئی کے لیے اس کی ٹکٹ کا انتظام ہو گیا ہے۔ہم بے حد خوش تھے کہ وہ آ رہا ہے۔ لیکن وہ اس سے پہلے ہی بڑی ڈگری لے کر چلا گیا۔ ہارون کی والدہ یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔

یاد رہے کہ کرائسٹ چرچ مساجد پر حملے میں ایک اور پاکستانی شہری شہید سہیل جو لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کا رہائشی تھا، کے بھائی کا کہنا تھا کہ میرے بھائی گذشتہ دو سال سے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مقیم تھے۔شہید سہیل کے بھائی نے بتایا کہ ہم پانچ بھائی ہیں اور میں سب سے چھوٹا ہوں۔ ایک بڑے بھائی امریکہ اور ایک آسٹریلیا میں ہیں۔

ایک بھائی یہاں پاکستان میں نوکری کر رہے ہیں۔ سہیل بھائی چوتھے نمبر پر تھے۔ والد کی ہارٹ اٹیک سے 2009ء میں انتقال ہو گیا۔ والدہ بھی مریض ہیں، ہم نے بھائی کی شہادت کا انہیں اگلے دن بتایا تھا۔ واضح رہے کہ اس سانحہ میں شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں میں سہیل شاہد، سید جہانداد علی، سید اریب احمد، محبوب ہارون ،نعیم رشید اور ان کے بیٹے طلحہٰ، ذیشان رضا، ان کے والد غلام حسین اور والدہ کرم بی بی شامل ہیں۔