مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں متبادل قیادت پر کام شروع ہو گیا، اہم مشاورت جاری

متبادل قیادت کے معاملے پر دونوں جماعتوں میں موجود ناراض گروپ بھی متحرک ہو گئے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 مارچ 2019 11:38

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں متبادل قیادت پر کام شروع ہو گیا، اہم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 مارچ 2019ء) : ملک میں موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے متبادل قیادتیں لانے پر غور شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے اہم مشاورتیں کی جا رہی ہیں تاہم اس معاملے پر دونوں سیاسی جماعتوں میں موجود ناراض گروپس بھی متحرک ہو گئے ہیں۔متبادل قیادت لانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے نہ صرف سر جوڑ لئے ہیں بلکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر کئی ایسے گروپ بھی متحرک ہوگئے ہیں جو اپنی قیادتوں سے ناراض تھے اور آنے والے متوقع حالات میں کُھل کر علیحدہ گروپ بنا سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے اندر ایک بڑے گروپ نے باقاعدہ یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پارٹی قائد نواز شریف اور مریم کے بعد شہباز شریف کی بھی سیاست مستقبل میں ختم ہوتی نظر آرہی ہے ، سانحہ ماڈل ٹاؤن، نیب کے ریفرنسز اور دیگر معاملات میں شہبازشریف کو کسی صورت ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا ۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں باقاعدہ ن لیگ کے ایک بڑے گروپ نے ایک اجلاس بھی کیا جسے انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے ، اس اجلاس میں یہ گفتگو ہوئی کہ حمزہ شہباز کے ساتھ اپنے اہم ذمہ دار افراد دیئے جائیں جو پارٹی کو سنبھالیں ۔

ن لیگ کے اندر ہی دوسری جانب نواز شریف کا قریبی گروپ کسی صورت میں بھی کسی اورکو قیادت منتقل کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس گروپ کے دو رہنماؤں نے تو یہاں تک کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر نواز شریف پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں یا جیل کے اندر ہی رہتے ہیں، دو دونوں صورتوں میں پارٹی اسی طرح کام کرے جو نواز شریف کے احکامات ہوں ۔ جبکہ کافی رہنماؤں نے تو مریم نواز کی قیادت پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور برملا کہا ہے کہ مریم نواز کی قیادت کسی طور منظور نہیں ہے کیونکہ آج جہاں مسلم لیگ ن پہنچی ہے اس میں زیادہ ہاتھ مریم نواز کی جارحانہ پالیسیوں کا ہی ہے جس نے پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ن لیگ کے بعد پیپلز پارٹی کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ پیپلز پارٹی کے اندر باقاعدہ یہ چہ مگوئیاں کی جاری ہیں کہ آصف زرداری ،فریال تالپور کی متوقع گرفتاری اور بلاول بھٹو کی نیب میں پیشیوں کے بعد پارٹی کو کون بہتر طریقے سے چلا سکے گا اور اگر آصف زرداری اور فریال تالپور گرفتار ہوجاتے ہیں تو بلاول بھٹو کہیں پارٹی کے ایسے گروہ کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہوں گے جو آصف زرداری کے مخالف ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے اندر ایک ایسا گروپ ،جس میں کئی اہم رہنما بھی شامل ہیں جو پیپلز پارٹی میں ہونے کے باوجود آصف زرداری کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے خاموشی سے سب کچھ سنتے تھے لیکن قیادت کے خلاف خاموش احتجاج کرتے تھے ، وہ گروپ بھی نہ صرف متحرک ہونا شروع ہوگیا ہے بلکہ اس گروپ نے اس پر کام شروع کر دیا ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں وہ بلاول بھٹو کے قریب ہو کر آصف زرداری کے قریبی حلقوں کو اس سے دور کریں اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں ۔

پیپلز پارٹی کی دھڑے بندی بھی کسی طور مخفی نہیں ہے۔ اسی دھڑے بندی کی وجہ سے پیپلز پارٹی رہنماؤں میں بھی کہیں زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں متبادل قیادتیں لانے کے معاملے پر اہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ آنے والے حالات میں ن لیگ کی تین اہم سیاسی شخصیات، نواز شریف ،شہباز شریف اور مریم نوازجبکہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور فریال تالپور سیاسی منظر نامے سے ہٹ جائیں گے اور یہ سیاست سے مائنس ہوں گے ۔