سانحہ کرائسٹ چرچ میں زندہ بچ جانے والے مسلمان شہری فیصل عباس کی کہانی

جب میں باہر آیا تو جوتے رکھنے کی جگہ کے پاس دو لاشیں پڑی تھیں۔ فیصل نے تمام کہانی بیان کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 مارچ 2019 16:14

سانحہ کرائسٹ چرچ میں زندہ بچ جانے والے مسلمان شہری فیصل عباس کی کہانی
نیوزی لینڈ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 مارچ 2019ء) : نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے میں زندہ بچ جانے والے مسلمان شہری فیصل عباس نے اپنی کہانی بیان کر دی۔ غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فیصل عباس نے بتایا کہ میں اکثر ڈیڑھ بجے تک مسجد پہنچ جاتا ہوں۔ اس جمعہ کو میں ایک بج کر پینتیس منٹ پر مسجد پہنچا اور اپنے جوتے رکھنے کے بعد وضو سے قبل سیدھا ٹوائلٹ میں داخل ہوا۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ میں وضو کے بغیر مسجد پہنچا ورنہ عموماً میں دفتر سے وضو کر کے مسجد پہنچتا ہوں۔ مجھ سے پہلے بیت الخلا میں ایک صومالی بھائی موجود تھے اور اندر داخل ہوتے ہی جب فائرنگ کی آواز آئی تو مجھے لگا کہ شاٹ سرکٹ ہوا ہے کیونکہ یہاں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک دم خیال فائرنگ کی جانب جائے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد باقاعدہ فائرنگ شروع ہو گئی۔

پہلے میں نے نکلنے کی کوشش کی لیکن زیادہ اور مسلسل فائرنگ کے بعد میں پھر واپس اندر چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا کہ ایک سے زیادہ لوگ ہیں اور میں سمجھ گیا کہ یہ حملہ آور کمروں میں جائیں گے۔ اس مسجد میں اتنے کمرے نہیں تھے۔ تو خوف کے عالم میں اس کے بعد میں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے کچھ دیر بعد اپنے خیالات کو مجتمع کر کے ہنگامی مدد کے لیے ٹرپل ون پر کال کرنا شروع کی لیکن کال نہیں ملی۔

اس کے بعد میں نے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر دوستوں کو میسج کرنا شروع کیے کہ مسجد مت آئیں، یہاں فائرنگ ہو رہی ہے اور ٹرپل ون پر کال کریں۔ فیصل کا کہنا ہے کہ میرے کچھ دوستوں نے اسے مذاق سمجھا۔ حملہ آور ایک بج کر 37 منٹ پر آیا تھا۔جب میری کال ملی تو میں نے انہیں حملے کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ فون پر دوسری جانب موجود شخص نے بڑے تحمل سے مجھے پولیس سے منسلک کیا۔

اس دوران میں نے ہر گروپ میں میسیج کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیے تاکہ جو کوئی بھی دیکھے وہ اس جانب رخ نہ کرے۔ پولیس نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمیں بتاتے رہیں اور چند منٹ کے وقفے سے وہ مجھ سے سوالات پوچھتے رہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں تو میں نے اپنی جگہ بتائی اور اس کا محل وقوع بتایا۔ اس کے کچھ دیر بعد پولیس آ گئی۔ پولیس نے مجھ سے پوچھا اور مجھے ہاتھ اُٹھا کر بیت الخلا سے باہر نکلنے کے لیے کہا۔

جب میں باہر نکلا، تومیں نے دیکھا کہ مجھ سے پہلے جو شخص بیت الخلا میں تھے وہ شہید ہوئے پڑے تھے۔ بائیں جانب میں نے گیلری میں دیکھا تو دو اور افراد شہید ہو چکے تھے کیونکہ ان کے جسم بے جان پڑے تھے۔ جب میں باہر آیا تو جوتے رکھنے کی جگہ کے پاس بھی دو لاشیں پڑی تھیں۔ باہر ایک سیاہ کپڑوں میں ملبوس خاتون کی لاش پڑی تھی۔ جس دورانیے میں پولیس آپریشن جاری تھا اس وقت ایمبولینس کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔

انہوں نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ایک تعمیراتی کمپنی کا ملازم آیا جس نے مجھے اپنی گاڑی میں زخمیوں کو ڈالنے کا کہا۔ ہم نے چار افراد کو ان کے گاڑی میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ہم واپس آئے تو علاقہ کی ناکہ بندی ہو چکی تھی اس لیے ننگے پیروں مجھے گھر واپس چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد سے مجھے کئی فون کالز آ رہی تھیں۔ چونکہ مجھے علم تھا کہ مجھ سے پہلے کون سے پاکستانی مسجد میں آتے ہیں تو میں نے ان کو کال کرنا شروع کی۔

کئی افراد نے فون نہیں اُٹھایا لیکن بہت لوگوں سے میں رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اُن سے میری بات بھی ہو گئی۔ فیصل نے کہا کہ ایمانداری سے اگر آپ ابھی مجھ سے کہیں کہ فیصل ابھی تم میسیج کرو، تم یہ بھی سوچو کہ کتنی گولیاں چلی ہیں اور یہ فیصلہ کرو کہ کس کو پہلے کس کو بعد میں میسیج بھیجنا ہے۔ میں یہ نہیں کر سکوں گا۔ میں نے اپنی بیوی کو میسیج تب کیا جب سارا معاملہ ختم ہو چکا تھا۔

فیصل نے کہا کہ شاید یہ ان کلموں کا اثر تھا جو میں نے پہلے تین بار پڑھے تھے لیکن بعد میں مجھے سات آٹھ لوگوں نے کہا کہ تمہارے میسج نے ہمارے قدم روک لیے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ اگر میں نہ بچتا تو سات آٹھ لوگ تو بچ جاتے۔ مجھے بس یہی ایک خوشی تھی۔ جب میں گھر آیا تو سب سے پہلے میرا بھارتی ساتھی مجھ سے ملنے آیا ، پھر میرا جنوبی افریقن ساتھی ملنے آیا اور وہ ساری رات ہمارے پاس بیٹھے رہے۔

فیصل کا کہنا تھا کے اس کے بعد ہمارے پاس نیوزی لینڈ کی دو دوستیں ملنے آئیں اور بہت دیر ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں۔ انہوں نے ہمارے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا۔ ان کو ندامت اور افسوس اتنا تھا کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد کہتی تھیں کہ ہم معافی چاہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ ایسے ہوا۔ اگلے دن ایک ایک امدادی کارکن ہمارے پاس آیا اور ہمیں گلے لگاتا اور کہتا کہ ہم معذرت خواہ ہیں اور ہم شرمندہ ہیں۔ فیصل کا کہنا تھا کہ ہر کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ یہ ایک طرح کی دوسری زندگی ہے اور اللہ کا قرب حاصل ہونا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ ہم نفرت کو نفرت سے نہیں مار سکتے لہٰذا ہمیں نفرت کو پیار سے مارنا ہو گا تاکہ نفرت کو ختم کیا جا سکے۔