کراچی کے ساحل سمندر اور جزائر سے بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بدستور جاری

روزانہ سینکڑوں ٹن تمر کی لکڑیاں ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری گوٹھ کے سمندر کناروں پر اترنے لگیں،سرکاری حکام خاموش تماشائی بن گئے

جمعرات 21 مارچ 2019 19:13

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2019ء) کراچی کے ساحل سمندر اور جزائر سے بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بدستور جاری، روزانہ سینکڑوں ٹن تمر کی لکڑیاں ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری گوٹھ کے سمندر کناروں پر اترنے لگیں، محکمہ جنگلات، سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے تمر مافیا کیخلاف خاموشی کا جام نوش کرلیا، تمر کے جنگلات سونامی جیسے طوفانوں سے بچائو کیلئے ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں، جھینگا مچھلی تمر کی جڑوں میں نسل افزائش کرتے ہیں، تمر کے جنگلات کی کٹائی دراصل تمر کا قتل ہے، تمر مافیا کیخلاف حتمی کاروائی کرتے ہوئے تمر کے جنگلات کو تحفظ فراہم کیا جائے (چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم کا حکومت سندھ سے مطالبہ): کراچی کے ساحل سمندر اور جزائر سے بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بدستوری جاری ہے، تمر مافیا کی طرف سے روزانہ سینکڑوں ٹن تمر کی لکڑیاں ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے سمندر کناروں پر اتاری جارہی ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین محمد علی شاہ نے کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ساحل سمندر اور جزائر سے تمر کے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے سمندر کناروں پر آباد ماہی گیر بستیاں دن بہ دن غیر محفوظ ہو تی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمر کے جنگلات ماحولیات، انسانی اور آبی حیات کے زندہ رہنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، تمر کے جنگلات ماحولیات میں موجود زہریلی ہوائیں جذب کر کے آکسیجن خارج کرتا ہے اورتمر کی جڑوں میں جھینگا مچھلی کی نسل افزائش ہوتی ہے۔

محمد علی شاہ کا مزید کہنا ہے کہ، تمر کے گھنے جنگلات تیز ہوائوں اور سمندری لہروں کو روک کر انسانی آبادی کو طوفانوں کی تباہی سے بچاتے ہیں، اگر یہ جنگلات ختم ہوگئے تو سب سے بڑا نقصان کراچی شہر کو ہوسکتا ہے اور سونامی جیسے خطرناک طوفانوں کو روکنے کیلئے کوئی بھی فطری چیز نہیں ہوگی۔ چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کے چند کرپٹ افسران نے رشوت اور بھتہ وصولی پر تمر کی کٹائی کو تحفظ فراہم کیا ہے اور محکمہ ماحولیات خاموش تماشائی بن گیا ہے، جبکہ تمر کے جنگلات پر کام کرنے والے متعدد غیر سرکاری اداروں نے بھی خاموشی کا جام نوش کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمر کے جنگلات زیادہ تر سندھ کے ساحلی علاقے اور انڈس ڈیلٹا میں موجود ہیں، جبکہ بلوچستان کی ساحلی پٹی میں تمر کے جنگلات بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں تمر کے جنگلات کا تمام دارومدار دریائے سندھ کے پانی اور انڈس ڈیلٹا کی ماحولیات پر ہیں۔ ہمارے ملک میں ہمیشہ تمر کے جنگلات کو فضول سمجھ کر انہیں تباہ و برباد کیا گیا ہے، یہاں ہماری ریاست نے کبھی بھی تمر کے خوبصورت جنگلات کو نہ اہمیت دی ہے اور نہ ہی تمر کے جنگلات کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے کوئی اقدام اٹھائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں لاکھوں ہیکٹرز پر مشتمل تمر کے جنگلات جنہیں مختلف طریقوں سے نقصان پہنچاتے ہوئے 70 ہزار ہیکٹرز پر محیط کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مینگروز کو تباہ کرنے کی ابتداء دریائے سندھ کے بہائو کو ڈیلٹا میں گرنے سے روک کر کیا گیا۔ اس کے علاوہ کراچی میں ترقی کے نام پر بڑے پیمانے پر پورٹ قاسم، اسٹیل مل اور کراچی پورٹ ٹرسٹ نے ہزاروں ایکڑ تمر کے جنگلات کوکاٹ کر تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں سے تمر مافیا نے تمر کے جنگلات کو کاٹ کر تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم نے حکومتی اداروں، محکمہ جنگلات اور ماحولیات کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے رہنمائوں سے مطالبہ کیا کہ تمر کے جنگلات کے تحفظ و افزائش کیلئے عملی اور موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔