ٴمسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’ اسلاوفوبیا: رجحانات اور انسداد ‘‘ کے عنوان سے مکالمہ کا انعقاد

مغرب اور اسلام کے مابین مشترکات اور باہمی ربط کی تاریخ کو اجاگرکرنا ضروری ہے، مقررین

جمعرات 21 مارچ 2019 20:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 مارچ2019ء) تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’ اسلاوفوبیا: رجحانات اور انسداد ‘‘ کے عنوان سے مکالمہ کا انعقاد کیا گیا، سیمینار کا مقصد دانشوروں اور اکیڈمیشنز کو دعوت دینا تھا کہ مکالمہ کا مقصد اسلاموفوبیا سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور اثرات سے کیسے نمٹ سکتے ہیں ، اور اس مسئلے کے حل کے لئے ہمارا کردار کیا ہونا چاہیئے اس کے لئے حتمی اور قابل عمل تجاویز پیش کرنا تھا۔

سیمینار کی صدارت وموتمر عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری و چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) راجہ ظفر الحق نے کی نے جبکہ مقررین میں،معروف قانون دان احمر بلال صوفی ،چئیرمین مسلم انسیٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، ممبر قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور صاحبزادہ امیر سلطان ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر بکر نجم الدین ، ڈاکٹر طغرل یامین، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈاکٹر محمد خان، مسلم انسٹیٹیوٹ کے محقق حمزہ افتخار ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج ڈاکٹر ثروت رؤف، سابق سفیر عامر انور شادانی اور ڈاکٹر ماریہ سلطان شامل تھے۔

(جاری ہے)

مقررین نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا مذہب کی بنیاد پر مغرب میں شدت کیسے دنیا میں پنپ رہی ہے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی اور اس جیسے دیگر واقعات مغرب میں پہلی دفعہ پیش نہیں ہوئے، مسلمان مغرب میں شدت اور نفرت کا روزانہ کی بنیاد پر شکار ہو رہے ہیں، اور ہوتے رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ اسلاموفوبیا کو حکومتیں سیاست اور ظاقت کے حصول کے لئے استعمال کیا جارہا ہے مغربی دنیا اور مسلمانوں میں موجود چند ایسے افراد جو اسلام کا چہرہ پوری طرح واضح نہیں کرتے، ان کی رائے کو بنیاد بنا کر پوری اسلامی دنیا کے متعلق غلط رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

اگرچہ مغرب میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد مسلمانوں کیلئے بڑی تعداد میں نیوزی لینڈ کے شہری نکلے اور اپنی بھرپور حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کی حکومت کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ مقررین نے زور دیا کہ اسلام کا چہرہ مغرب کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ہر مسلمان کو اسلام کے سفیر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش ہونا ہے جس کا بہترین نمونہ نبی اکرام ? ہیں مسلمانوں کو اپنے نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، نیوزی لینڈ سانحہ میں شہید ہونے والے پاکستانی ڈاکٹر کی بیوی جو اسی واقعہ میں اپنا ایک بیٹا بھی کھو بیٹھی ہے بہادر خاتون نے دکھ کی اس گھڑی میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا حقیقی چہرہ جو محبت اور امن کا ہے اس کو پیش کیا اس رویے کو دنیا میں بسنے والے افراد کو سمجھانے اور میڈیا کے ذریعے اس کو پھیلانے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ چند نادانوں کے شدت پسندانہ رویوں کی نفی کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اسلاموفوبیا کو ختم کیا جا سکے۔

ریاستی اور حکومتی عالمی معاہدوں کی پاسداری ضروری ہے، مذہب کے بارے میں عالمی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیئے تاکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کاخیال کیا جائے ، اسلام کے بارے میں قایم سٹیریو ٹائپس کو ختم کرنے کے لیئے اقدامات اٹھائیں جائیں، میڈیا ، فلم ، کتب میں اسلاموفوبیا کے خلاف حقائق کو بتایا جائے ، اسلامو فوبیا کو پھیلانے والے دنیا کے طاقتور مراکز میں موجود ہیں یہ شدت ان کے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے ، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں مغرب میں بہت سے لوگ مثبت سوچ بھی رکھتے ہیں لیکن شدت پسندانہ سوچ کے حامل لوگ طاقتور مراکز میں ہیں جس سے مغرب کا عام آدمی متاثرہے، اسی عام آدمی کو مٹاثر کرنے کے لیئے اسلام کا حقیقی چہرہ مغرب کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ، مکالمہ کے اختتام پر اسلاموفوبیا کے انسداد کے لئے درج ذیل سفارشات پیش کیں او آئی سی کو فعال کرنا انتہائی ضروری ہے او ?ئی سی اس معاملے پر فعال کردار ادا کرے ، مغرب اور اسلام کے مابین مکالمہ کو فروگ دیا جائے میڈیا اپنا کردار ادا کرے اور اسلای ممالک کا میڈٰیا اسلام کے مثبت امیج کو فروغ دے ، اسلامی دنیا عالمی سطح کی جامعات کو قائم کریں ، دنیا میں مسلمان اپنے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی قوت میں اضافہ کریں۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری اسلاموفوبیا کی مذمت کریں ، سول سوسائٹی اسلاموفوبیا کی مذمت کرے ، مسلم لیڈر شپ ،مغرب کی لیڈر شپ کو قائل کریں کہ اپنے ممالک میں اس رویئے کو ترک کرنے کے لئے پروگرام ترتیب دیں، دانشور اور محققین مشترکات پر بات کریں، اسلام مخالف پراپیگنڈے کے خلاف موثر حکمت عملی اپنانے کے لئے جامع حکمت عملی اسلامی دنیا مل کر بنائے تاکہ مستقبل میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جا سکے۔ سیمینار میں ، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلبائ ، محققین، دانشوروں، سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔