’می ٹو‘ مہم کے بعداب جاپان میں’ ’کو ٹو‘‘ مہم کے چرچے

جاپان سے نئی مہم ’کو ٹو‘ شروع ہوئی ہے، جس نے اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک کا رخ نہیں کیا، تاہم اس مہم نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی

جمعہ 22 مارچ 2019 12:08

’می ٹو‘ مہم کے بعداب جاپان میں’ ’کو ٹو‘‘ مہم کے چرچے
ٹوکیو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مارچ2019ء) اکتوبر 2017 میں ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف کم سے کم 100 خواتین کے سامنے آنے اور ان کی جانب سے پروڈیوسر پر’ریپ‘ اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جانے کے بعد شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا تھا۔’می ٹو‘ مہم کو ہاروی وائنسٹن کیس کے بعد شروع کیا گیا تھا جس نے دنیا بھر کی خواتین کو طاقت فراہم کی اور ہر خاتون نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرکے ٹوئٹر پر اپنے ساتھ ہونے والے نامناسب رویوں پر بات کی تھی۔

امریکا سے لے کر برطانیہ، پاکستان سے لے کر ہندوستان، فرانس سے لے کر کینیڈا اور چین سے لے کر جاپان تک ’می ٹو‘ مہم کے ذریعے خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی بات کی۔

(جاری ہے)

خواتین کی جانب سے کہانیاں شیئر کیے جانے کے بعد کئی طاقتور مردوں کو قانونی مقدمات کا سامنا کرنے سمیت سرعام خواتین سے معافی بھی مانگنی پڑی۔اگرچہ اب تک ’می ٹو‘ مہم جاری ہے، تاہم اب یہ مہم کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

’می ٹو‘ مہم کے کمزور ہونے کے بعد اب جاپان سے نئی مہم ’کو ٹو‘ شروع ہوئی ہے، جس نے اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک کا رخ نہیں کیا، تاہم اس مہم نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی۔یہ مہم اگرچہ ’می ٹو‘ سے کچھ مختلف ہے، تاہم ’کو ٹو‘ بھی خواتین سے جڑے ایک مسئلے کی وجہ سے شروع ہوئی۔’کو ٹو‘ کو ’می ٹو‘ کا جاپانی ورڑن قرار دیا جا رہا ہے اور اس مہم کے ذریعے جاپان خواتین اور خصوصی طور پر ملازمت پیشہ خواتین جوتے پہننے کی آزادی مانگ رہی ہیں۔

اس مہم کا آغاز رواں برس جنوری میں اداکارہ و ماڈل 32 سالہ یمی اشیکاوا کی جانب سے کیے جانے والے ایک ٹوئیٹ کے بعد ہوا۔یمی اشیکاوا نے جنوری میں اپنے ٹوئیٹ میں بتایا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایک دن جاپانی خواتین ملازمت کے دوران اونچی ایڑی (ہائی ہیلز) کے جوتے پہننے کی قید سے آزاد ہوں گی۔ساتھ ہی انہوں نے ملازمت کے دوران ہائی ہیلز پہننے کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ نوکری کرتی تھیں تب انہیں کئی گھنٹوں تک اونچی ایڑی والے سینڈل پہن کر کام کرنا پڑتا تھا، جس سے ان کے پاؤں دکھنے سمیت انہیں خفتگی کا احساس ہوتا تھا۔

یمی اشیکاوا کی جانب سے ٹوئیٹ کیے جانے کے بعد ان کی اسی ٹوئیٹ کو 30 ہزار سے زائد بار ری ٹوئیٹ کیا گیا جب کہ اس پر سیکڑوں جاپانی خواتین اور خصوصی طور پر ملازمت کرنے والی خواتین نے کمنٹس کیے۔یمی اشیکاوا کے ٹوئیٹ کو بہت پسند کیے جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف ٹوئٹر پر ’کو ٹو‘ کا ہیش ٹیگ شروع کیا بلکہ انہوں نے چینج آرگنائیزیشن میں ایک آن لائن پٹیشن بھی دائر کی۔انہوں نے پٹیشن دائر کرتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ جاپان کے کچھ اداروں میں خواتین کو نوکری کے اوقات میں ہائی ہیلز کی سینڈل پہننے پر مجبور نہیں کیا جاتا، تاہم زیادہ تر اداروں میں ایسے جوتے نہ پہننے والی خواتین کو اچھا پروفیشنل نہیں مانا جاتا۔