ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں 16 سال سے سزائے موت کا منتظر مبینہ ذہنی مریض قیدی جناح ہسپتال میں دم توڑ گیا

قیدی میں خون کی شدید کمی تھی ،اسکا بلڈ پریشر بھی انتہائی کم تھا،ڈاکٹروں نے کھانے کی نالی لگائی تھی مگر اسکی حالت مسلسل بگڑتی گئی خضر حیات نے 6 برس جیل ہسپتال میں تنہا گزارے، انہیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں‘ جسٹس پروجیکٹ پاکستان خضر حیات کو ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے پر اکتوبر 2001ء میں مجرم قرار دیا گیا ،ٹرائل کورٹ نے 2003ء میں سزائے موت سنائی تھی

جمعہ 22 مارچ 2019 23:51

ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں 16 سال سے سزائے موت کا منتظر ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مارچ2019ء) ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں 16 سال سے سزائے موت کا منتظر مبینہ ذہنی مریض قیدی خضر حیات جناح ہسپتال میں دم توڑ گیا ۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی پریس ریلیز کے مطابق خضر حیات کو کھانا اور دوائیاں چھوڑنے کی وجہ سے طبیعت بگڑنے پر جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔جیل حکام کا کہنا تھا کہ خضر حیات میں خون کی شدید کمی تھی اور اسکا بلڈ پریشر بھی انتہائی کم تھا۔

ڈاکٹروں نے کھانے کی نالی لگائی تھی لیکن اسکی حالت مسلسل بگڑتی گئی اور انتقال سے چند گھنٹے قبل وہ بے ہوش ہو گیا تھا ۔ جے پی پی کے مطابق جیل حکام نے 2008ء میں خضر حیات میں پیرانوئڈ شیزوفرینیا کی تشخیص کی تھی۔اسکی دماغی حالت اور ذہنی معذوری سے متعلق ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے طاقت ور اینٹی سائیکوٹک ادویات دی گئیں جس کی وجہ سے اسکا مرض بتدریج بگڑ گیا۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا کہ خضر حیات نے گزشتہ 6 برس جیل ہسپتال میں اپنے سیل میں تنہا گزارے جس کی وجہ سے وہ اپنے ارد گردسے لاعلم ہو گیا تھا اور اسے اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں تھا ۔ جے پی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال نے کہا کہ یہ انتہائی ہولناک ہے کہ خضر حیات ایک طویل عرصے تک دیکھ بھال سے محروم رہا اور انصاف کے انتظار میں دنیا سے چلا گیا ۔

خضر حیات کا کیس اس بات کی حیران کن مثال ہے کہ ذہنی طور پر معذور قیدی سزائے موت کے حقدار کیوں نہیں ہوتے۔سارہ بلال نے کہا کہ ایسے مریضوں کو باقاعدہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ جیلوں کی ہیبت ناک قید میں نہیں بلکہ ذہنی صحت کے مراکز میں ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ خضر حیات کو ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے پر اکتوبر 2001ء میں مجرم قرار دیا گیا تھا، جبکہ ٹرائل کورٹ نے 2سال بعد 2003ء میں اسے سزائے موت سنائی تھی۔

دسمبر 2018ء میں لاہور ہائی کورٹ نے خضر کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے لیے ان کی والدہ کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی۔عدالت کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے کے بعد جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے خضر حیات کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔اس سے قبل بھی خضر حیات کے بلیک وارنٹ دو بار جاری ہوچکے ہیں اور دونوں بار لاہور ہائی کورٹ نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا تھا۔

جون 2015ء میں خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے گئے جسے ہائی کورٹ نے آخری لمحات میں منسوخ کردیا تھا۔اس کے بعد جنوری 2017ء میں لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے خضر کے ایک بار پھر ڈیتھ وارنٹ جاری کیے لیکن اس بار بھی ہائی کورٹ نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔11جنوری کو لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ذہنی مرض شیزوفرینیا (جس میں مریض کی شخصیت بے ربط، منتشر ہوجاتی ہی)میں مبتلا سزائے موت کے قیدی خضر حیات کو تختہ دار پر لٹکانے کی تاریخ 15 جنوری مقرر کردی تھی۔

اس کے بعد خضر حیات کے اہل خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ذہنی مرض میں مبتلا شخص کو پھانسی دی جا رہی ہے عدالت اس کا نوٹس لے۔خیال رہے کہ 12جنوری 2019 ء کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خضر حیات کے اہل خانہ کی جانب سے کی جانے والی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے خضر حیات کی پھانسی تاحکم ثانی معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد خضر حیات کا کیس دو رکنی بینچ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کو ارسال کیا گیا تھا،جو شیزوفرینیا میں مبتلا پھانسی کے دو قیدیوں امداد علی اور کنیزاں بی بی کے مقدمات کی سماعت کررہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے بھی خضر حیات کی ماہرین نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ ذہنی بیماری میں مبتلا قتل کے مجرم سابق پولیس افسر کو پھانسی دینے سے گریز کیا جائے۔