وزارت داخلہ ہند کی طرف سے پارٹی پرعائد پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ

S مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے وسیع پیمانے پر شروع کی گئی پکڑ دھکڑ کو بھارتی جارحیت قرار دیکر اس کی مذمت کرتے ہیں، اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس

اتوار 24 مارچ 2019 19:21

'Mاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 مارچ2019ء) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے نمائندوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے جے کے ایل ایف پر عائد پابندی ،پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جموں جیل میں پابند سلاسل چیئرمین محمد یاسین ملک کی بگڑتی ہوئی صحت اورپابندی کے اعلان کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں و شبانہ چھاپوںکے ذریعے کارکنان کو حراساں کرنے جیسے اقدامات کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورتحال پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وزارت داخلہ ہند کی طرف سے پارٹی پرعائد پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے اور اسے غیر جمہوری ، غیر قانونی ،غیر اخلاقی، بلا جواز ، مکروہ عزائم وناانصافی پر مبنی اورحقیقت کے برعکس عمل قرار دیتاہے۔

(جاری ہے)

ہم لبریشن فرنٹ پر عائد پابندی کے اطلاق کے ساتھ ہی بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے وسیع پیمانے پر شروع کی گئی پکڑ دھکڑ کو بھارتی جارحیت قرار دیکر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس دوران ابھی تک درجنوں پارٹی لیڈران گرفتار ہو چکے ہیں ۔سینکڑوں ذمہ داران کے گھروں پر چھاپے ڈالے جا چکے ہیں جو ہنوز جاری ہے۔سینکڑوںکارکنان و ہمدردوں کو مقامی پولیس تھانوں میں حاضر ہونے کے احکامات دئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہر آنے والے لمحے میں دراز ہو تا جارہا ہے۔

مائسمہ / آبی گذرسرینگر میں قائم صدر دفتر ’’ مقبول منزل ‘‘سمیت تمام ضلعی دفاتر کا ریکارڈ ضبط کر کے بند کردئے گئے ہیں۔ ۔ بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی عائد کرنے کی جو وجوہات بیان کئے گئے ہیں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ان تمام وجوہات کو جھوٹ، فریب ،من گھڑت اور مضحکہ خیز قرار دیتا ہے۔ کشمیری پبڈتوں کا قتل عام،قتل کے مختلف مقدمات ، terror funding اور سالہاسال پرانے دیگر الزامات لبریشن فرنٹ کی قیادت پر عائد کرنا دراصل بھارت سرکار بالخصوص مودی ذہنیت کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کیونکہ آج تک بھارت اپنی ہی عدالتوں میں جھوٹے ثبوتوں کے ساتھ ہماری قیادت کے خلاف کوئی ایک الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے مگر اب بھارتی ہندو انتہاء پسند سرکار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیںبالعموم اور پوری قوم کو بالخصوص مذید عتاب کاشکار بنانا چاہتی ہے تاکہ ہم آزادی کے نعرے سے دستبردار ہوں۔

۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندیوں کا سلسلہ کشمیر کی تواریخ میں کوئی نئی بات نہیں کہ جس سے نپٹنا ہمیں نہ آتا ہو ۔ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیںکہ بھارت نے اُسوقت کے اپنے وزیر داخلہ مرحوم مفتی محمدسید اور بدنام زمانہ نام نہاد ریاستی گورنر جگموہن کے ذریعے 1990 ء کے اوائل میں بھی لبریشن فرنٹ پر پابندی عائد کی تھی جس کو لبریشن فرنٹ نے عدالت میں چیلنج کیا اور بعد ازاں 2001ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ٹریبیونل نے فیصلہ دیتے ہوئے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر عائد پابندی کو غیر قانونی قرار دیکراسے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے سپریم کورٹ کے اس ٹریبیونل نے دہلی سے سرینگر آکریہاں ایک مقامی ہوٹل میں عام لوگوں ، پولیس اورسرکاری افسران، سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کے علاوہ لبریشن فرنٹ کے قائدین سے بھی اپنے interviews میںسوال و جواب کئے تھے۔ ۔ دنیا اس بات سے باخبر ہے کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ریاست جموں کشمیر کی آزادی کے حصول کے لئے پر امن مگر فعال و متحرک سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے ۔

8 198ء میں عسکری جدوجہد کا آغازکر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے میں پڑے گرد آلود مسئلہ کشمیر کو دنیا کی توجہ کا مرکز بناکر اپنا مقصد حاصل کرتے ہی عالمی طاقتوں اور خود بھارت کی سول سوسائٹی کے اصرار پر 1994ء میں سخت اور غیر مقبول فیصلہ لیتے ہوئے یکطرفہ سیزفائر اور عسکریت کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی مذاکرات اور پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے مستقل ، پائیدار ، جمہوری اور انصاف پر مبنی ریاستی باشندوں کی خواہشات کے عین مطابق حل کے لئے آواز بلند کی ۔

دنیا گواہ ہے اس اعلان کے باوجود بھارتی فورسز نے نہ صرف لبریشن فرنٹ کے 600سے زائد نوجوانوں کو شہید کیا بلکہ خود چیئرمین یاسین ملک پر چھ جان لیوا حملے بھی کئے جن میں وہ معجزانہ طور بچ نکلے۔ ان تمام تر کاروائیوں کے باوجود لبریشن فرنٹ اور اس کے قائد یاسین ملک کے قدم ڈگمگائے نہیں اور اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہوئے پرامن سیاسی جدوجہد کے راستے پر گامزن رہے جبکہ دوسری طرف بھارت نے مکرو فریب پر مبنی اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھتے ہوئے ہمیں اور ہماری قیادت کو دوبارہ مصلح جدوجہد کی طرف دھکیلنے کی بھر پور کو شش کی بہرحال جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر سی2001ء میں پابندی ہٹنے کے ساتھ ہی قائد انقلاب و پارٹی چیئرمین جناب محمد یاسین ملک صاحب کی سربراہی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے پرامن سیاسی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ریاست گیر سطح پر 2003 ء کے وسط میں ڈیڈھ سال پر مبنی دستخطی مہم شروع کی جس دوران انہوں نے کم و بیش چھ ہزار سے زائد شہروں ، قصبوں، دیہاتوں اور دور دراز پہاڑی علاقوں میں جاکر پندہ لاکھ سے زیادہ ریاستی باشندوں سے مسئلہ کشمیر کے فوری ، مستقل اور کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق اور مذاکرات میںکشمیری نمائندوں کی موجودگی میں حل کرانے کی حمایت میں ان کے دستخط لئے۔

ساتھ ہی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے 116 دنوں اور راتوں پر محیط پرامن سفرِآزادی freedom march peaceful شروع کیا جس دوران جناب چیئرمین محمدیاسین ملک اور پارٹی لیڈران نے کشمیر کے طول و عرض میں اپنی پرامن سیاسی جدوجہد کا پیغام پہنچایا۔ یاد رہے ان دونوں مہموں کی فوٹو نمائش photo exhibition یاسین ملک صاحب نے نہ صرف دہلی بلکہ اسلام آباد پاکستان میں بھی منعقد کی اور ان دونوں مہموں پر مبنی نہ صرف فلمائی گئی ڈاکومنٹری فلم بلکہ دستخطی مہم کے دوران کشمیریوں سے لئے گئے پندرہ لاکھ سے زیادہ دستخط درجنوں CD's میں سیو کر کے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو دئے گئے۔

علاوہ ازیں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ضرورت کے مطابق اس دوران دو مرتبہ جیل بھرو تحریک ،دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے جنتر منتر کے مقام سمیت درجنوں بار بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف پر امن بھوک ہڑتالیں کیں اور سینکڑوں بارپرامن احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی اور یوں کشمیری عوام کو پرامن سیاسی جدوجہد کی ترغیب دیتے رہے، جو ہنوز جاری ہے۔

ان مظاہروں کے دوران کم بیش 800 مرتبہ انہیں گرفتار بھی کیا گیا اور بعض موقعوں پران کی رہائی مہینوں بعد عمل میں لائی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ چیئرمین یاسین ملک سمیت دنیا بھر میں موجود لبریشن فرنٹ کے قائدین نے عالمی فورمزکے علاوہ عالمی طاقتوں کے سربراہوں یا ان کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والی بے شمار ملاقاتوں میں کشمیریوں کی آزادی و حق خوداردیت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کی نمائندگی کی جن میں امریکہ ، برطانیہ ، یورپی ممالک اور مڈل ایسٹ کے دورے بھی شامل ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے عالمی ادارے نے بھی یاسین ملک صاحب کو 1992 ء میںضمیر کا قیدی قرار دیا جب وہ بدنام زمانہ بھارتی تہاڑجیل میں پابند سلاسل تھے۔

علاوہ ازیں محمد یاسین ملک صاحب امریکہ کے دورے کے دوران نہ صرف وہاں سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مہمان بنے بلکہ کئی نامور پالیسی ساز اداروں اور مقتدر اور سر فہرست کے یونیورسٹیز میں مہمان خصوصی کے طورپر گیسٹ سپیکر بھی رہے ۔ ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھارت نے ایک بار پھر پابندی عائد کر کے دراصل اپنی خفت مٹانے کی ناکام کو شش کی ہے اور وہ کشمیریوں کی مقبول آواز یعنی حق آزادی کی آواز کو پوری قوت کے ساتھ دبانے پر کمر بستہ ہے جبکہ ہمارا مصمم اور غیر متزلزل قوت ارادہ ہے کہ بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کا پامردی ، حوصلہ ، ہمت اور یکجہتی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

بھارت کے ان جابرانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اورنہ کشمیری قوم خوفزدہ ہے اور ناہی ہم حق آزادی سے دستبردار ہوں گے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پرامن راستے پر گامزن رہتے ہوئے عوامی طاقت کے بلبوتے پر بھارت کے غرور کو مٹا کر ہی دم لیں گے۔۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اس موقع پرپوری کشمیر قوم اور اپنی پارٹی قیادت کے حوصلوں کی داد دیتے ہوئے انہیں خراج تحسین کرتا ہے۔

لبریشن فرنٹ آرپار ریاست گیر سطح پر بھارتی جبرواستبداد کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے علاوہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر میں موجود پارٹی ذمہ داران بھارت کے ان کشمیر اور کشمیری کُش غیر جمہوری اقدامات کے خلاف اپنے اپنے ملکوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ ، برسلز، فرانس ، جرمنی، ترکی اور جنیوا جیسے ملکوں میں احتجاجی مظاہروں ، سفراء سے ملاقاتوں ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق سے وابستہ عالمی اداروں کے نمائندوں، پالیسی ساز اداروں کے نمائندوں، میڈیا ہاوسز کے نمائندوںو صحافیوں اور OICسے وابستہ ممبر ممالک سمیت اپنے اپنے ملکوں کے اہم سیاسی اور سماجی رہنماوں سے رابطوں اور ملاقاتوں کے سلسلے کو مذید دوام بخشیں۔

سفارتی شعبے پر سرگرم قائدین و ذمہ داران ملاقاتوں اور اپنی تحریروں کے ذریعے متعلقین کو بھارت کے ان غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدامات سے باخبر رکھیں اور اس کے نتیجے میںصلب ہوجانے حقوق کے نقصانات سے انہیں آگاہ رکھیں تاکہ جمہوریت کے لبادے میں چھپا بھارت کا اصل چہرا سامنے آسکے۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اپنے سفارتی مشن آفسز اور زونل ذمہ داران کے ذریعے مقتدر انسانی حقوق تنظیموں کی طرف سے منظر عام پر آنے والے رپورٹس بالخصوص اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن اور مقامی's NGO کی طرف سے شایع کردہ رپورٹ کو بھی عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھارت کے ان اقدامات کو مقامی عدالت میں چلینج کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست بھر کے علاوہ دنیا بھر میں اپنے احتجاج کا سلسلہ بتدریج وسیع کرتا جائے گا ۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاوہ آزادکشمیر و گلگت بلتستان زون میں تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز پر احتجاجی مظاہرے ہوں گے ۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے علاوہ سمندر پار ممالک میں بھارتی سفارتخانوں اور اقوام متحدہ کے مشن و مبصر دفتروں کے سامنے بھی احتجاج ہوگااور انہیں یاداشتیں بھی پیش کی جائیں گی۔

۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر عائد پابندی ، میر واعظ عمر فاروق اور سید علی شاہ گیلانی کے فرزند وسیم گیلانی کی NIAکی طرف سے بے جا طلبی اور امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فیاض ، ترجمان زاہد علی ایڈوکیٹ سمیت سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہے ۔۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فی الفورآزادی پسندسیاسی جماعتوں پر عائد پابندی کے فیصلوں کو واپس لیکر یاسین ملک سمیت تمام گرفتار شدگان قائدین و کارکنان کو رہا اور سید علی گیلانی و میرواعظ عمرفاروق سمیت دیگر قائدین پر لگائے گئے جھوٹ اور لغو الزامات واپس لیں۔

بصورت دیگر ہمارا احتجاج جاری رہے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم سخت سے سخت فیصلے اور انتہائی اقدام لینے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیںجس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو تینوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے حل کرانے میں اپنا قلیدی کردار ادا کریں۔

۔ احتجاج کو وسیع اور اپنے محسنوں کو یاد کرتے ہوئے 27 مارچ شہید جلیل احمد اندرابی ایڈوکیٹ ، 30مارچ شہید حکمت ڈاکٹرعبدالاحد گورو اور31 مارچ شہید ِکشمیر شہید اشفاق مجید وانی کی برسیوں پر ریاست اور ریاست سے باہر مختلف احتجاجی پروگرامز میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ انہیں ذبردست خراج عقیدت پیش کرے گا ۔ قائد تحریک امان اللہ خان مرحوم کی تیسری برسی 26اپریل کو شایان شان طریقے سے منائی جائے گی جبکہ 28 اپریل کو گلگت میں قائد تحریک کی یاد میں ایک مرکزی تعزیتی ریفرنس منعقد ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورتحال کے پیش نظرجموں کشمیر لبریشن فرنٹ اسلام آباد میں مئی کے پہلے ہفتے میں آل پارٹیز کانفرنس کا بھی اہتمام کرے گا۔۔۔ ۔ راٹھور