105 ارب خرچ کرنے کے باوجود تھر والوں کو ایک گلاس صاف پانی نہیں ملا، سپریم کورٹ

وزیراعلی سندھ سے جواب طلبآئندہ سماعت پر مراد علی شاہ خود پیش ہو کررپورٹ پیش کریں، ریمارکس

پیر 25 مارچ 2019 20:12

105 ارب خرچ کرنے کے باوجود تھر والوں کو ایک گلاس صاف پانی نہیں ملا، سپریم ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 مارچ2019ء) سپریم کورٹ نے تھر کول کرپشن کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ 105 ارب خرچ کرنے کے باوجود تھر والوں کو ایک گلاس صاف پانی نہیں ملا. سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تھر کول اتھارٹی میں اربوں روپے کی کرپشن کیس کی سماعت ہوئی. سپریم کورٹ نے آڈٹ رپورٹ پیش نہ کرنے پر سندھ حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ خود جوابدہ ہیں، رپورٹ پیش کریں.جسٹس گلزار احمد نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ 105 ارب روپے خرچ کردیئے مگر تھر والوں کو ایک گلاس صاف پانی نہیں ملا، آپ کی حکومت کیا کررہی ہے عوام کو بنیادی سہولت نہیں دے سکی.

(جاری ہے)

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہ سارے پیسے جیبوں میں گئے اور کرپشن کی نذر ہوگئے، حکومت کا بنیادی کام عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے، آپ لوگ شفاف طریقے سے ترقیاتی کام بھی نہیں کرسکے، اسپیشل انیشیٹیو ڈیپارٹمنٹ، تھر کول اتھارٹی اور موبائل ایمرجنسی یونٹ کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن ہوئی.دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ میں پانی کی فروخت سے متعلق کمپنیوں کی رجسٹریشن کے کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ معاملہ امیروغریب کا نہیں پانی کے معیار کا ہی.

عدالت نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ شہریوں کوجو پانی فروخت کیا جا رہا ہے اس کا معیاری ہونا ضروری ہے، بڑی کمپنیاں پلانٹس کی تنصیب کے بعد سے جانچ کا عمل پورا کرتی ہیں.درخواست گزار نے کہا کہ ہم توغریب بستیوں میں صاف پانی مہیا کررہے ہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ معاملہ امیر و غریب کا نہیں پانی کے معیار کا ہی. وکیل درخواست گزار نے کہا کہ دیگر کمپنیاں سیلڈ بوتلوں میں پانی فروخت کرتی ہیں، رجسٹریشن کی شرط 400 گز کی فیکٹری یا دکان پر لاگو ہوتی ہے، ہم چھوٹی چھوٹی دکانوں کو آر او پلانٹس فراہم کرتے ہیں.سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پانی کے معیار پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا رجسٹریشن ضروری ہیعدالت نے درخواست گزار کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے 9 اپریل کو پیش رفت رپورٹ طلب کرلی.

یاد رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اعتراف کیا تھا کہ صاف پانی کی عدم فراہمی کراچی اور حیدر آباد میں ٹائی فائیڈ کا مرض پھیلنے کا سبب ہی.