مرگی لا علاج نہیں ،سو فیصد صحت یابی ممکن ہے،عالمی دن پر جنرل ہسپتال میں آگاہی واک و سیمینار

دنیا میں مرگی سے متاثرہ کل6کروڑ افراد میں سی22لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہے جو ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں ‘پروفیسر خالد محمود

منگل 26 مارچ 2019 17:09

مرگی لا علاج نہیں ،سو فیصد صحت یابی ممکن ہے،عالمی دن پر جنرل ہسپتال ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مارچ2019ء) مرگی کے عالمی دن کے حوالے سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز لاہور جنرل ہسپتال کے شعبہ نیورالوجی اور پاکستان سوسائٹی آف نیورالوجی کے اشتراک سے آگاہی واک و سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ، پروفیسر احسن نعمان ، پروفیسر آصف بشیر ، ایم ایس ڈاکٹر محمود صلاح الدین،ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محسن ظہیر ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہد مختار و دیگر ڈاکٹروں و نرسوں کے علاوہ میڈیکل کے طلبا و طالبات کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی ۔

واک کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر " مرگی کے مریض کو جوتا یا چپل سنگھانا ، آسیب یا دیگر توہمات سے جوڑا جانا ، تعویز گنڈے سے علاج کرانا قطعی طور پر درست نہیں"درج تھا ۔

(جاری ہے)

پروفیسر خالد محمود کا کہنا تھا کہ مرگی کے مرض کی بر وقت تشخیص انتہائی اہمیت کی حامل ہے ،یہ لا علاج مرض نہیں بلکہ مناسب علاج معالجے کے بعد سو فیصد صحت یابی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں مرگی کی شرح دیگر ملکوں کے مقابلوں میں زیادہ ہونے کی وجہ انفکیشن ہے ،ٹی بی ٹائیفائیڈ ، گردن توڑ بخار اس مرض کی اہم وجوہات ہیں ۔حاملہ خواتین احتیاط کے ذریعے تندرست بچے کو جنم دے سکتی ہیں ۔ڈاکٹروں کو مرگی میں فرق سمجھنا ضروری ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ دنیا بھر میں مرگی سے متاثرہ کل6کروڑ افراد میں سی22لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہے جن میں سے کم و پیش50ہزار مریض مرگی کا علاج کروا رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وہ مریض جن کا مرض ادویات سے قابو میں نہ آئے ان کیلئے سرجری کا طریقہ موجود ہے۔پروفیسر احسن نعمان ، پروفیسر آصف بشیرکا بچوں میں مرگی کے حوالے سے کہنا تھا کہ بچے کے دماغ کا وہ حصہ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہوتا ہے اگر مرگی کے دورے بڑھتے رہیں تو دماغ کے اُس حصے کے زخمی ہونے کا امکان ہوتا ہے ،اسی طرح ڈاکٹر جانتا ہے کہ مریض کو کئی ایک ایسے دورے بھی ہوتے ہیں جو مرگی نہیں کسی اور بیماری کی علامت ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ جدید عہد میں پاکستان میں مرگی کے مریض ادویات اور آپریشن کے ذریعے صحت یاب ہو رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی کم ہو نے کی وجہ سے عوام الناس میں اس مرض کے بارے میں زیادہ شعور نہیں ہے ۔ خصوصا ہمارے دہی علاقوں میں لوگ مرگی کے مرض کو جن بھوت کا سایہ سمجھتے ہوئے تعویز گنڈے سے اس کا علاج کراتے ہیں جو غلط ہے۔

ایم ایس ایل جی ایچ ڈاکٹر محمود صلاح الدین نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹرز کے علاوہ میڈیا،سول سوسائٹی ،علمائے کرام اور سماجی تنظیمیں مرگی کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہ توہمات پر کان نہ دھریں اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے اقدامات اٹھائے جا سکیں ۔ڈاکٹر محسن ظہیر اور ڈاکٹر شاہد مختار اور دیگر مقررین نے کہا کہ دیگر بیماریوں کی طرح مرگی بھی ایک دماغی بیماری ہے جس کا علاج ہونا چاہیے ،اس مرض کی کئی ایک اقسام ہیں جس کی صحیح تشخیص سے ہی صحیح علاج ممکن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مریض کو مرگی کے دورے کے دوران کروٹ کے بل لٹا دینا چاہیے اور کوشش کی جائے کہ ایسے مریض کو زخمی ہونے سے بچایا جائے اور اگر اس دورے کا دورانیہ3منٹ سے زیادہ ہو تو ہسپتال جانے سے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ مرگی کے شدید دورے میں ہاتھ پیر اکڑ جاتے ہیں ،منہ سے جھاگ نکلنا اور پیشاب بہنا شروع ہو جاتا ہے جبکہ بچوں کو ہاتھ یا پاؤں میں ہلکے جھٹکے بھی لگتے ہیں۔مقررین نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مریض کو مستند ڈاکٹر یانیورو فزیشن کو دکھایا جائے ،خون کے متعلقہ ٹیسٹ ،ای سی جی اور ایم آر آئی کروا کر با قاعدہ ادویات استعمال کی جائیں ۔واک کے اختتام پر کبوتر اور غبارے فضاء میں چھوڑے گئے۔