پی پی اے ایف کی جانب سے 8ویں امت الرقیب ایوارڈز اور پہلی نیشنل ویمنز جمبوری تقریب کا انعقاد

پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف) نے پاکستان بھر میں دیہی علاقوں میں باہمت خواتین کی حوصلہ افزائی کیلئے 8ویں امت الرقیب ایوارڈز اور پہلی قومی ویمنز جمبوری تقریب کا انعقاد کیا

بدھ 27 مارچ 2019 18:16

پی پی اے ایف کی جانب سے 8ویں امت الرقیب ایوارڈز اور پہلی نیشنل ویمنز ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مارچ2019ء) پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف) نے پاکستان بھر میں دیہی علاقوں میں باہمت خواتین کی حوصلہ افزائی کیلئے 8ویں امت الرقیب ایوارڈز اور پہلی قومی ویمنز جمبوری تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں گلگت۔بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب اور فاٹا کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی پرعزم خواتین نے اپنے بہترین کام سے نہ صرف اپنے گھرانے میں آمدن کا ذریعہ پیدا کیا بلکہ علاقے میں دیگر افراد کی بھی رہنمائی کی۔

تقریب میں صوبے کی بنیاد پر مختلف پس منظر کے حامل افراد کی نمائندگی کے اعتبار سے نشستوں کی ترتیب رکھی گئی تھی جن میں عطیات دہندگان، سفراء ، سفارتکار، سرکاری افسران، ماہرین تعلیم، اقوام متحدہ کے امدادی ادارے، کاروباری شعبہ اور میڈیا کے نمائندے شامل تھے تاکہ وہ براہ راست ایوارڈ جیتنے والوں سے گفتگو کرسکیں۔

(جاری ہے)

پروگرام میں ان افراد کو بتایا گیا کہ پی پی اے ایف اپنی شراکتی تنظیموں کے ذریعے مالیاتی اور غیرمالیاتی تعاون فراہم کرتا ہے جس کی بدولت ملک بھر میں خواتین اپنی زندگیوں میں مثبت انداز سے بڑی تبدیلیاں لانے کی استعداد حاصل کرلیتی ہیں۔



رواں سال امت الرقیب ایوارڈز سات غیرمعمولی خواتین کو اپنے علاقوں میں باہمت انداز سے شاندار ترقیاتی کام کرانے پر ایوارڈز پیش کئے گئے۔ رواں سال ایوارڈ جیتنے والی خواتین میں بی بی صادقہ (قلعہ سیف اللہ، بلوچستان) بی بی صالحہ (لسبیلہ، بلوچستان)، شبانہ گل (بالائی دیر، خیبرپختونخوا)، فریاد خیلہ (کرک، خیبرپختونخوا)شازیہ شیخ (ٹھٹھہ، سندھ)، جنت منظور (راجن پور، پنجاب) اور رقیہ بی بی (لیہ، پنجاب) شامل ہیں۔

ان خواتین نے دل کو چھولینے والے اپنی زندگی کے حساس واقعات پر روشنی ڈالی اور بھرپور تعاون کی فراہمی پر پی پی اے ایف اور اسکی شراکتی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔

رواں سال ایوارڈ کے انتخاب کے معیار میں ملک کے ایسے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پر توجہ دی گئی جن میں پی پی اے ایف کا حکومت پاکستان کے بلاسود قرضے کی اسکیم میں تعاون ، اطالوی حکومت کے مالی وسائل سے چلنے والے تخفیف غربت پروگرام (PPR) اور جرمن ترقیاتی بینک کے ایف ڈبلیو (KfW) کے مالی وسائل سے چلنے والے لائیولی ہوڈ سپورٹ اینڈ پروموشن آف اسمال کمیونٹی انفراسٹرکچر پروگرام (LACIP) اور ہائیڈرو پاور و قابل تجدید توانائی کے پروگرام شامل ہیں۔

ویمنز جمبوری پروگرام میں شریک تمام خواتین کو 'ارادہ' کے موضوع سے ٹریننگ کروائی گئی جس میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ان کی قائدانہ خصوصیات کو ابھارا گیا تاکہ ان کا کردار مزید آگے بڑھے اور وہ اپنے علاقوں میں سماجی و معاشی ترقیاتی کام میں بہتر انداز سے کردار ادا کریں۔

پی پی اے ایف کے سی ای او قاضی عظمت عیسیٰ نے بتایا، "پی پی اے ایف امت الرقیب ایوارڈز کے ساتھ اب اپنے پہلے نیشنل ویمنز جمبوری پروگرام کے ذریعے خاص طور خواتین کی حوصلہ افزائی اور تعاون کی فراہمی کے لئے پرعزم ہے۔

اپنے مختلف پروگرمز کے ذریعے ہم نے گلگت-بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب اور فاٹا کے دیہی علاقوں کی سماجی خواتین رہنماوٴں کے کام کو اجاگر کیا۔ مشکلات کے سامنے ان کے عزم سے ہماری قوم کی خواتین کی قوت ظاہر ہوتی ہے۔"

قاضی عظمت عیسیٰ نے مزید کہا، "مردوں کی جانب سے خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کی ہمت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ مکمل طور پر شہری، معاشی اور سیاسی دھارے میں حصہ لے سکیں۔

اس طرح مکمل اشتراک کے ذریعے ہی پاکستان ایک بہترین قوم میں ڈھل سکتا ہے۔"

پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف) کی سینئر گروپ ہیڈ سامعہ لیاقت علی خان نے پی پی اے ایف کے کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "پی پی اے ایف اپنی 20 ویں سالگرہ منا رہی ہے۔ ہم نے جس کا کام بیڑا اٹھایا اس میں اس بات کو یقینی بنایا کہ اپنے تمام پروگرامز میں حصہ لینے والوں اور مستفید ہونے والوں میں خواتین کی تعداد مساوی رہے ۔

آج ہم یہاں موجودہ اور سابقہ امت الرقیب ایوارڈز جیتنے والے افراد کے ساتھ 55 باہمت خواتین موجود ہیں جن کے کاموں سے ان کے علاقوں میں مثبت اثرات آئے اور انہوں نے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔" پی پی اے ایف کی جانب سے چھوٹے قرضوں، شراکتی تنظیموں کی سطح پر ترقی، تعلیم و صحت، امدادی کاموں سے آمدن، اور علاقے میں انفراسٹرکچر کے کاموں کا ہدف 40 فیصد طے کیا جاتا ہے لیکن ان شعبہ جات میں ترقیاتی کاموں کی شرح اس سے کافی زائد ہی ہوتی ہے۔



ایوارڈ جیتنے والی خواتین میں خیبرپختونخوا کی فریاد خیلہ نے علاقائی سطح پر ترقیاتی منصوبوں میں خواتین کی شمولیت پر درپیش مشکلات پر اظہار خیال کیا۔ علاقے کے مردوں اور سرکاری حکام کی سردمہری کے علاوہ خود ان کے شوہر نے ترقیاتی کام جاری رکھنے پر طلاق کی دھمکی دے دی۔ انہوں نے کہا، " میں نے سوچا کہ اگر دیگر خواتین کو بھی مضبوط کرنا ہے تو پھر مجھے مضبوط ہونا پڑے گا ۔

میں نے علاقے کی خواتین سے رابطہ کیا، انہیں اپنے کام میں شامل کیا اور باہر نکل کر کام کرنے اور مل کر اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی حوصلہ افزائی کی۔
 
بلوچستان کے ضلع قلع سیف اللہ کی بی بی صادقہ نے کم شرح خواندگی اور سخت معاشرتی و سماجی ڈھانچے سے نمٹنے سے متعلق اپنی خدمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا، میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں گاوٴں کے بچوں کو پڑھاوٴں گی، اپنے ملک کو قابل فخر بنانا ہے۔

میں نے اپنے بھائی کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ میرے پاس سات یا آٹھ بچے پڑھنے آتے تھے ، اب میرے پاس پڑھنے کے لئے آنے والے بچوں کی تعداد 50 ہوچکی ہے۔ انشاء اللہ ! سال 2030 تک میں اس بات کو یقینی بناوٴں گی کہ ہر لڑکی میٹرک تک تعلیم حاصل کرے۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ "

تقریب میں پوسٹر اور شارٹ فلم ایوارڈز جیتنے والے افراد میں بھی ایوارڈز فراہم کئے گئے جسے پی پی اے ایف نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی یونیورسٹی طالب علموں کے لئے منعقد کیا اور انہوں نے صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف 16 روزہ مہم میں حصہ لیا۔

پوسٹر مقابلے میں نسٹ یونیورسٹی کی مدیحہ خالد جبکہ نسٹ ہی کی نور علوی نے رنر اپ ایوارڈ جیتا۔ شارٹ فلم کا مقابلہ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی مومل علی نے جیت لیا جبکہ نسٹ کی عالیہ فاطمہ نے رنر اپ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

پی پی اے ایف ہر سال خواتین کے عالمی دن پر سماجی طور پر فعال امت الرقیب مرحومہ کی یاد میں امت الرقیب ایوارڈز کی تقریب کا انعقاد کرتا ہے۔

پی پی اے ایف کی سماجی طور پر متحرک کارکن امت الرقیب کو بلوچستان کے علاقے مستونگ میں سال 2011 میں دہشت گردوں نے قتل کردیا تھا۔ یہ ایوارڈ باہمت خاتون امت الرقیب کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور دیگر خواتین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے دیہی علاقوں میں سماجی و معاشی ترقی کے لئے بہتر انداز سے کام کریں۔ امت الرقیب کی جانب سے مقامی سطح پر شرح پیدائش میں زچہ و بچہ کی اموات کی روک تھام کے لئے بھرپور انداز سے کام کیا جس کے نتیجے میں زچہ و بچہ کی شرح اموات میں نمایاں کمی آگئی ہے۔



ہر سال پی پی اے ایف اپنی شراکتی تنظیموں سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی خواتین کو منتخب کرنے کے لئے مدعو کرتا ہے جو بنیادی صحت عامہ ، لڑکیوں کی تعلیم، روزگار اور آمدن کے ذرائع، پانی، توانائی، انفراسٹرکچر، ماحولیاتی تبدیلی، ماحولیات اور آفات سے نمٹنے جیسے شعبہ جات میں غیرمعمولی کارکردگی پیش کررہی ہیں۔ انہیں بطور کاروباری خواتین، سماجی کارکن اور ایسے جدت انگیز انداز طیرقے اختیار کرنے کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے جن سے ان کے گھرانے اور علاقے کی سطح پر مثبت تبدیلی آئے۔

پی پی اے ایف نے سال 2012 میں پہلے امت الرقیب ایوارڈ کا انعقاد کیا۔ گزشتہ سات سالوں میں 40 خواتین اور دو مرد امت الرقیب ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں۔

تقریب میں موجود قابل ذکر شخصیات میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن محترمہ خاور ممتاز، کینیا کے سفیر عزت مآب پروفیسر جولیوس بٹوک ، مراکش کے سفیر عزت مآب محمد کرمون، آذربائیجان کے سفیر عزت مآب علی علیزادے، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف پاکستان اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سینئر وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ موجود تھے ۔



پی پی اے ایف کا تعارف
پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف )ملک کا سب سے بڑا نیم سرکاری ادارہے ہے جو کمیونٹی کی جانب سے چلائی جانیوالی مائیکرو کریڈٹ میں ترقی، گزر اوقات، دوبارہ قابل استعمال توانائی، پانی اور انفراسٹرکچر، قحط میں کمی، تعلیم، صحت، معذوری، مہارت میں بہتری اور تربیت، سماجی و ماحولیاتی تحفظ اور ایمرجنسی حالات میں عمل کام کرتا ہے۔ یہ پاکستان بھر کے 137اضلاع میں موجود ہے جبکہ اسکی 130 تنظیموں کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد گاوٴں /آبادکاریوں کی شراکت داری ہے جبکہ ان کے ہمراہ ایک لاکھ 33ہزار سے زائد کمیونٹی ادارے اور نچلی سطح پر چار لاکھ 40 ہزار کریڈٹ/کامن انٹرسٹ گروپس ہیں۔