Live Updates

بلوچستان اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل

ہمارا بنیادی حق ہے ہم پر کوئی تنقید کرے اور اظہار رائے کرے تو ہم اپنا جواب دیں بیرون ملک بیٹھے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ ہم بلوچستان جا کر واشک میں یا کہیں اور رہائش اختیار کریں ،ملک سکندر ایڈوکیٹ پی ایس ڈی پی میں شامل آن گوئنگ اور نئے منصوبوں کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائے ، نواب اسلم رئیسانی قومی اسمبلی سمیت کسی بھی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی جانب سے ایک ایک گھنٹے تک بولنے کی مثال کہیں موجود نہیں، سردار یار محمد رند

ہفتہ 30 مارچ 2019 23:39

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مارچ2019ء) بلوچستان اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہوگیا جبکہ اپوزیشن لیڈر ملک سکند ر ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی گذشتہ اجلاس کی تقریر سے بیرون ملک مقیم لوگوں سے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ ہم بلوچستان میں واشک میں یا کہیں اور رہائش اختیار کریں ،تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ایک گھنٹہ چالیس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن بشریٰ رند نے کہا کہ اجلاس کے انعقاد میں مسلسل تاخیر ہوتی ہے جس سے اراکین کا وقت ضائع ہوتاہے انہوں نے سپیکر سے استدعا کی کہ صورتحال کا نوٹس لیں جس پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ حکومت چیف وہپ بنائے اجلاس کے انعقاد میں تاخیر کی وجہ حکومتی کمزوری ہے ۔

(جاری ہے)

جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے بھی اجلاس کے تاخیر سے شروع ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے انعقاد میں مسلسل تاخیر سے بروقت آنے والے اراکین اسمبلی اور میڈیا کے نمائندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل چھ مہینوں سے سوالات جمع کرارہے ہیں تاہم ہمیں جوابات موصول نہیں ہوئے ہیں جس سے حکومتی دعوئوں کی نفی ہوتی ہے ۔

اس حوالے سے وزیر قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے وزیراعلیٰ کی مشیر و پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے مجلس قائمہ برائے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے لئے اصغرخان اچکزئی ، میر اسد بلوچ ، نوابزادہ طارق مگسی ، بشریٰ رند ، سردار یار محمد رند ، اصغرترین اور ثناء بلوچ ، مجلس قائمہ برائے محکمہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ شاہرات و تعمیرات کے لئے محمد رحیم مینگل ، حاجی محمد نواز ، سید محمد فضل آغا ، احمد نواز بلوچ ، نصراللہ زیرئے ، دنیش کمار اور گہرام بگٹی ، قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کھیل و ثقافت سیاحت آثار قدیمہ میوزیم (عجائب گھر) و لائبریریز کے لئے فریدہ بی بی ، نوابزادہ گہرام بگٹی ، میر نعمت اللہ زہری ، نور محمد دمڑ ، محمدخان طور اتمانخیل ، شکیل نوید قاضی اور مکھی شام لعل ، مجلس قائمہ برائے محکمہ سماجی بہبود ترقی نسواں، زکواة ،عشر و اوقاف ، حج اقلیتی امور و امور نوجوانان کے لئے احمد نواز بلوچ ، مولوی نور اللہ ، زبیدہ خیر خواہ، ٹائٹس جانسن ، نصراللہ زیرئے ، محمد عارف محمد حسنی اور محمدخان لہڑی ، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ ، قبائلی امور ، جیل خانہ جات ، صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کے لئے لیلیٰ ترین ، سردار سرفراز چاکر ڈومکی ، فریدہ بی بی ، سردار عبدالرحمان کھیتران ، مٹھا خان کاکڑ ، حاجی محمد نواز کاکڑ اور میر اکبر مینگل ، مجلس قائمہ برائے صحت عامہ ، بہبود آبادی کے لئے ڈاکٹر ربابہ ، محمد عارف محمد حسنی ، انجینئرز مرک خان اچکزئی ، ظہور بلیدی ، سردار صالح بھوتانی ، میر حمل کلمتی ، زبیدہ خیر خواہ ، قائمہ کمیٹی برائے محکمہ تعلیم ، خواندگی و غیر رسمی تعلیم ، اعلیٰ تعلیم ، صدارتی پروگرام سی ڈی ڈبلیو اے ، معیاری تعلیم ، سائنس وا نفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے عبدالواحد صدیقی ، میر زابد ریکی ، شکیلہ نوید قاضی، زینت شاہوانی ، بانو خیل ، عمرخان جمالی اور بشریٰ رند ، مجلس قائمہ برائے محکمہ لوکل گورنمنٹ ، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( بی ڈی اے ) ، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( جی ڈی اے ) ، بی سی ڈی اے ، شہری منصوبہ بندی و ترقیات کے لئے قادر علی نائل ، مسعود علی خان لونی ، میر اکبر آسکانی ، ملک نعیم خان بازئی ، سلیم احمد کھوسہ، سید محمد فضل آغا اور ملک نصیر شاہوانی ،مجلس قائمہ برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، بی واسا بشمول کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی پراجیکٹ کے لئے مولوی نورا للہ ، محمد رحیم مینگل ، حاجی محمد نواز،ثناء اللہ بلوچ، نصراللہ خان زیرئے ، مبین خان خلجی اور میر نصیب اللہ مری ،مجلس قائمہ برائے محکمہ آبپاشی و توانائی، ماحولیات ، جنگلات و جنگلی حیات کے لئے محمد اکبر مینگل ، میر زابد علی ریکی، سید محمد فضل آغا،میر حمل کلمتی،زینت شاہوانی، محمدخان لہڑی اور عمر خان جمالی ، مجلس قائمہ برائے محکمہ زراعت و کوآپریٹوسوسائٹی، لائیوسٹاک ، ڈیری ڈویلپمنٹ ، ماہی گیری و خوراک کے لئے میر یونس عزیز زہری ، ملک نصیر شاہوانی، شکیلہ نوید قاضی،اصغرخان ترین ، حمل کلمتی،عبدالرشید،لیلیٰ ترین ،مجلس قائمہ برائے محکمہ مالیات ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، بورڈ آف ریونیو اور ٹرانسپورٹ کے لئے میر جان محمد خان جمالی ، سردار یار محمد رند ، احسان شاہ ، ڈاکٹر ربابہ ، دنیش کمار ، اصغرخان ترین ، یونس عزیز زہری، مجلس قائمہ برائے صنعت و حرفت ، کان کنی و معدنی ترقی ، محنت و افرادی قوت کے لئے نوابزادہ گہرام بگٹی ، سردار عبدالرحمان کھیتران،سردار محمد صالح بھوتانی، میر نصیب اللہ میر ، احسان شاہ ،زابد علی ریکی ، مکھی شام لعل،مجلس قائمہ برائے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی ، بین الصوبائی رابطہ ، قانون و پارلیمانی امور ، پراسیکیوشن اور انسانی حقوق کے لئے مستورہ بی بی ، محمدخان اتمانخیل، مبین خان خلجی، دنیش کمار،سکندر علی عمرانی ، ملک نصیر شاہوانی ، حاجی محمد نواز ،مجلس حسابات عامہ کے لئے اختر حسین لانگو ، سید محمد فضً آغا ، ملک نصیر شاہوانی ، ثناء اللہ بلوچ،نصراللہ زیرئے ، زابد علی رکی ، میر اسد اللہ بلوچ، سردار یار محمد رند ، ظہور احمد بلیدی، عبدالخالق ہزارہ اور انجینئرز مرک خان اچکزئی ، مجلس برائے قواعد وانضباط کار و استحقاقات کے لئے شاہینہ کاکڑ، ماہ جبین شیران،ظہور احمد بلیدی،میر اسداللہ بلوچ،انجینئر زمرک خان اچکزئی ، نصراللہ زیرئے اور زینت شاہوانی ،مجلس برائے مالیات کے لئے سپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی ، وزیر خزانہ، میر جان محمد جمالی ، اختر حسین لانگو، اصغرخان اچکزئی، اصغر علی ترین ، بشریٰ رند، مجلس برائے سرکاری مواعید کے لئے ڈاکٹر ربابہ ، سلیم احمد کھوسہ، میر ضیاء اللہ لانگو ، ظہور احمد بلیدی ، بشریٰ رند ،عبدالواحد صدیقی، ثناء بلوچ اور مجلس برائے ہائوس اینڈ لائبریری کے لئے ڈپٹی سپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی ، شاہینہ خان کاکڑ،بانو خلیل، ٹائٹس جانسن، ڈاکٹر ربابہ اور مبین خان خلجی کو منتخب کرنے کے لئے الگ الگ تحاریک ایوان میں پیش کیں جن کی ایوان نے متفقہ طور پر منظور ی دی اور یو ں بلوچستان اسمبلی میں ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہوگیا ۔

کمیٹیوں کی تشکیل کے حوالے سے تحاریک کی منظوری پر ایوان میں وقتاًوقتاً ڈیسک بجائے جاتے رہے ۔ بعدازاں ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وزیراعلیٰ میر جام کمال نے ایک لمبی تقریر کی جس کے دوران اپوزیشن پر تنقید بھی کی چونکہ وہ قائد ایوان ہیں اس لئے ہمیں مناسب نہیں لگا کہ اس دن ان کی تقریر کے بعد اظہار خیال کریں ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہم پر کوئی تنقید کرے اور اظہار رائے کرے تو ہم اپنا جواب دیں ۔

وزیراعلیٰ نے خود کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کی کوشش کی ان کی تقریر کی جس سے بیرون ملک بیٹھے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ بلوچستان آباد ہوگیا اور انہوں نے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ ہم بلوچستان جا کر واشک میں یا کہیں اور رہائش اختیار کریں انہو ں نے کہا کہ جمہوریت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جمہوریت باعمل زندگی گزارنے کو کہتے ہیں سیاسی و جمہوری عمل ایک اخلاقی علم ہے ۔

اس ایوان میں بیٹھے ہوئے لوگ عوام کے منتخب نمائندے ہیں جو حیثیت حزب اقتدار کی ہے وہی حیثیت حزب اختلاف کی بھی ہے خدا کے لئے بلوچستان کی ترقی کے تمام زاویوں پر سوچاجائے اورقدم اٹھایا جائے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں صرف اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ جن جن حلقوں سے ہمارا تعلق ہے ان حلقوں کے عوام کو اس لئے حقوق سے محروم نہ کیا جائے کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں حزب اختلاف کے اراکین بھی اپنے حلقو ں کے منتخب نمائندے ہیں انہوں نے کہا کہ 25جولائی2018ء سے قبل جو لوگ منتخب تھے وہ اس وقت کے منتخب نمائندے تھے اور آج جواراکین یہاں بیٹھے ہیں وہ ان حلقوں کے منتخب نمائندے ہیں مگر افسوس کہ ہمیں بدنام کرنے کے لئے غیر منتخب لوگوں کی سرپرستی کی جارہی ہے اور وہ ہمارے حلقوں میں جا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ جنہیں آپ نے منتخب کیا ہے وہ ایک روپیہ کا کام بھی نہیں کرسکتے ہم آپ کو واٹر سپلائی ،ر وزگار اور ترقیاتی منصوبے دیں گے حلقوں میں مداخلت سے متعلق ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اس رویئے کو کسی صورت بھی جمہوری رویہ نہیں کہا جاسکتا ۔

حکومت نے پی ایس ڈی پی 2018-19ء پر تالے لگادیئے ہیں جس پر ہم اپنے خدشات کااظہار کررہے ہیں تاکہ رقم کو لیپس ہونے سے بچایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ حکومت دعوے کررہی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم خضدار سے منتخب ہونے والے رکن یونس عزیز زہری نے اپنے حلقے میں سابق ادوار میں ہونے والے کروڑوں کے کرپشن کی نشاندہی کی جس پر کمیٹی بھی قائم کی گئی لیکن تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی کمیٹی کا کوئی اتہ پتہ چل رہا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے سیندک اور ریکوڈک منصوبے کے دفاع کے لئے ایوان میں قرار داد منظور کرائی جس پر 16اکتوبر2018ء کو کمیٹی قائم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا لیکن چھ ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے اب تک نہ تو کمیٹی کو کوئی ٹاسک دیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی اجلاس منعقد ہوا ہے انہوں نے کہا کہ یہاں قانون سازی کی بات ہورہی ہے حکومت بتائے کہ نو ماہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کتنے قوانین اس ایوان سے پاس کرائے گئے حکومتی اراکین سفید کاغذ کو سیاہ کرکے قوانین ایوان میں پیش کرتے ہیں اور اسے واپس لے لیتے ہیں بلوچستان میں سرعام گولڈ اور کاپر کی کرپشن ہورہی ہے کرپشن کو روکنے کے لئے مزید قوانین بنانے کی بجائے حکومت پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

کوئٹہ شہر میں سرعام منشیات فروخت ہورہی ہے حکومت بتائے کہ کیا مجبوری ہے کہ وہ منشیات کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کرپائی کوئٹہ میں کھانے پینے کی اشیاء پر لوگوں کو زہری کھلایا اور پلایا جارہا ہے اس پر حکومت کیوں کوئی ایکشن نہیں لیتی انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں قائدا یوان نے اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں جن سڑکوں کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی یہ منصوبے سی پیک منصوبے کے تحت ہورہے ہیں حکومتی اراکین یہاں آکر وقت ضائع کرکے لوٹ جاتے ہیں ان گزرے ماہ میں کوئی قابل ذکر منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،ہم نے حکومت کو کرپشن کے کیسز دیئے ہیں کہ خدا راکرپشن کا یہ کچرہ یہاں سے اٹھائیں مگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی انہوںنے کہا کہ ہمارا احتجاج ختم نہیںہوا یہ جاری رہے گا۔

اس دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اراکین کے مسلسل بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ سپیکر بار بار اراکین کو بیٹھنے اور ایک ایک کرکے بولنے کی تاکید کرتے رہے وزیر خزانہ میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ سیندک اور ریکوڈک منصوبوں سے متعلق کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا حکومت کا نہیں اسمبلی سیکرٹریٹ کی ذمہ داری ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ پیر کو مذکورہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی سمیت کسی بھی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی جانب سے ایک ایک گھنٹے تک بولنے کی مثال کہیں موجود نہیں انہوں نے کہا کہ جب ایک معزز رکن ایک گھنٹے تک مسلسل بولے گا تو اسے نہ تو کوئی سننے والا ہوگا نہ ہی پھر کسی دوسرے معزز رکن کو بات کرنے کا موقع ملے گا ۔

انہوںنے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک گھنٹے تک بولنے کی روایت نہ رکھیں چاہے بولنے والا قائد ایوان ہی کیوں نہ ہو ۔سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رواں سیشن کے دوران میں مسلسل چوتھی مرتبہ اپنا مطالبہ دہرارہا ہوں کہ پی ایس ڈی پی میں شامل آن گوئنگ اور نئے منصوبوں کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائے رواں سیشن کے پہلے اجلاس میں سپیکر نے کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی انہوںنے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کمیٹی بنا سکتے ہیں تو بھی ہمیں کہیں اور اگر آپ کمیٹی قائم نہیں کرسکتے تو بھی ہمیںآ گاہ کردیں تاکہ ہم اپنے آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرکے کارروائی کا ٹوکن واک آئوٹ ، جلسے جلوس کریں ۔

انہوں نے کہا کہ اب پی ایس ڈی پی سے معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے ہم بلوچستان کے ہر مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں حکومت ہمارے ساتھ بلوچستان کے معاملات پر مذاکرات کرے انہوں نے کہا کہ میری اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے عمران خان سے چھ نکات پر عملدرآمد کے لئے زبانی نہیں بلکہ تحریری معاہدہ کرکے ضمانت لی ہے انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان سے لاپتہ افراد کے مسئلے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو لوگ بازیاب ہوئے ان کا خیر مقدم کرتے ہیںتاہم یہ جن لوگوں کے ہاتھوں رہا ہورہے ہیں انہیں بھی کٹھہرے میں لایا جائے ۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف میں ہونے والے معاہدے میں بی اے پی فریق نہیں ہے پی ایس ڈی پی سے متعلق جو تفصیلات مانگی گئی تھیں معزز اراکین کو فراہم کردی گئیں اگر انہیں مزید تفصیلات چاہئیں تووہ بھی دے دی جائیں گی انہوںنے کہا کہ ہم ایسا کوئی عمل نہیں دہرائیں گے جس سے ایوان کا وقار مجروح ہوہر مسئلے پر قانونی دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت سے مسائل حل کریں گے انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں آج بنی ہیں اسمبلی سیکرٹریٹ جلدا زجلد ان کا اجلاس طلب کرے تاکہ ان کمیٹیوں کے سربراہان کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور پی ایس ڈی پی کا معاملہ بھی متعلقہ کمیٹی میں زیر غور لایا جائے اگر پھر بھی معزز اراکین قائمہ کمیٹی سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو وہ چاہیں تو ایوان کی کمیٹی بنائی جائے گی انہوں نے آفیشل گیلری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک محکمے کا سیکرٹری صاحب موجود ہے باقی کوئی افسر نہیں آیا میں بیورو کریسی کے اس رویے کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا تھا تاہم مجھے ساتھیوں نے اس سے روکا انہوں نے کہا کہ سپیکر اجلاسوں میں شرکت یقینی نہ بنانے والے افسران کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائیںجس پر سپیکر نے سیکرٹری اسمبلی کو اس بابت متعلقہ حکام کو خط لکھنے کی ہدایت کی ۔

اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے سنجاوی واقعے سے متعلق تحریک التواء پر بحث کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کیا کہ واقعے کے روز سے لے کر اب تک سنجاوی میں احتجاج ہورہا ہے اور ہڑتال ہورہی ہے یہ ایک حساس مسئلہ ہے جس کا حل نکالنا چاہئے اور اس پر ایوان میں بحث کرائی جانے چاہئے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بھی سنجاوی واقعے کے حوالے سے ایوان میں بحث کرانے کی ضرورت پر زور دیا ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی مگر اس کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی وہ خبر یہ ہے کہ عالمی بینک نے بلوچستان میں پانی کے حوالے سے اپنا 20کروڑ ڈالر کا منصوبہ معطل کردیا ہے یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ورلڈ بینک کو بھی خدشہ ہے کہ کہیں یہ رقم کرپشن کی نذر نہ ہوجائے۔

انہوںنے کہا کہ قائد ایوان نے گزشتہ روز کے اجلاس میں لمبی تقریر کی ہم اس امید کااظہار کررہے تھے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے پر پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی کے قیام کا اعلان کریں گے لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کرپشن کی شکایات آرہی ہیں جس کا ثبوت عالمی بینک کا اپنا بیس کروڑ ڈالر کا خطیر منصوبہ معطل کرنا ہے حالانکہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں کی80فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور خود صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی60فیصد لوگ ایسے ہیں جو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ہمارا احتجاج جاری ہے ہم نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے تفصیلات مانگی تھیں جو فراہم نہیں کی گئیں اور صرف دو صفحات ہمیں تھمادیئے گئے اس معاملے پر اپوزیشن اراکین نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے ملاقات بھی کی مگر انہوں نے بھی کسی قسم کی تفصیل دینے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حکومت نے منع کیا ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر محمدخان لہڑی ، دنیش کمار اور قادر علی نائل نے پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر ہونے پر مبارکباد دی جس پر سردار یار محمد رند نے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جواہلیت و صلاحیت دی ہے اس کے مطابق بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے کام کروں گا اوربلوچستان کے تمام علاقوں کو یکساں اہمیت دوں گا انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں جب میرے پاس پاکستان کی تیسری بڑی وزارت تھی اس وقت بھی میں نے بلا تفریق صوبے کی خدمت کی اور اٹھارہ ماہ کے قلیل عرصے میں چار سو سے زائد لوگوں کونوکریاں دیں اور لوگوں کو نوکریوں کے حکمنامے گھروں پر پہنچائے ۔

انہوںنے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے ایوان میں سلیقے کا خیال رکھنا چاہئے اپوزیشن اراکین ہوں یا حکومت تمام اراکین کے حلقوں کی یکساں اہمیت ہے ایجنڈا حکومت کا ہونا چاہئے لیکن دونوں کی حیثیت برابر ہے انہوںنے کہا کہ میں خود بھی صوبائی اسمبلی میں واحد اپوزیشن رکن رہا ہوں اور پانچ سال کے دوران جب باقی اراکین کوایک ارب 27کروڑ کے ترقیاتی فنڈدیئے گئے اس دوران مجھی127روپے بھی نہیں ملے میرے حلقے کے فنڈز باقی اراکین میں تقسیم کئے گئے یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے بعدازاں اجلاس منگل2اپریل سہ پہر چار بجے تک کے لئے ملتوی کردیاگیا ۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات