اللہ سے عافیت اور امریکہ سے عافیہ طلب کرنے کی گھڑی آگئی ہے، عافیہ 16 مارچ کو واپس کیوں نہیں آئی : ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے اغواء کے 16 سال مکمل ہونے کے موقع پر اسلام آباد پریس کلب پر مظاہرہ میں ڈاکٹر فوزیہ، زبیرفاروق خان و دیگر سیاسی رہنمائوں کا خطاب

اتوار 31 مارچ 2019 19:15

اللہ سے عافیت اور امریکہ سے عافیہ طلب کرنے کی گھڑی آگئی ہے، عافیہ 16 ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 مارچ2019ء) ڈاکٹر عافیہ کے اغواء کو16 سال گذر گئے مگر زخم آج بھی اسی طرح گہرے اور تازہ ہیں۔یہ بات عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے اغواء کے 16 سال مکمل ہونے کے موقع پر اسلام آباد پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ 16سال شعبدہ بازی، جعلسازی اور فریب میں گذر گئے مگر مجھے وہ روز اول کی طرح آج بھی یاد ہے۔

ہر روز میں اپنے رب سے ایک سوال کرتی ہوں کہ آخر میں ہی کیوں عافیہ ہی کیوں ہم ہی کیوں میں توبہ کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں، صرف اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ انسان خواہش کرسکتا ہے لیکن اختیار خدا کوہوتا ہے۔ڈاکٹر فوزیہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب عافیہ کی وطن واپسی یقینی نظر آتی ہے مگر وہ واپس نہیں آپاتی ہے جیسا کہ 16 مارچ کو ہوا۔

(جاری ہے)

مجھے احساس ہوا کہ عظیم لوگ ہی قربانیاں دیتے ہیں اور خون اور پسینہ بہاتے ہیںاور ہمیشہ حق، عزت اور غیرت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، وہ تعداد میں کم ہوتے ہیں مگران کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اوربالآخر حتمی کامیابی عافیہ اور اس کے سپورٹرزجیسے بہادر لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔16 سال پہلے کراچی میں میری چھوٹی بہن ایک ایسے نظام تعلیم کیلئے اپنے گھر سے روانہ ہوئی جو ہمارے مستقبل کو بدل کر رکھ دیتامگر اسے روکا گیا، اغواء کیا گیا،اس پر تشدد کیا گیا، اس کے کمسن بچے چھین لئے گئے ، اسے زنجیروں میں جکڑا گیا اور پیٹا گیا۔

اس کا جرم کیا تھا اس کا جرم، حقیقی طور پر روشن خیال، خوشحال پاکستان بناناتھا۔ پاکستان میں ایم آئی ٹی، ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے معیار کے تعلیمی ادارے قائم کرنا تھاجس کا مقصد طارق بن زیاد، محمود غزنوی، ٹیپوسلطان، ابن بطوطہ، عمرخیام اور محمدبن قاسم جیسے فرزند اور بی بی فاطمہ، بی بی عائشہ، بی بی زینب، ام عمارہ اور ام حکیم جیسی عظیم مائیں پیدا کرنا تھا مگر یہ عافیہ کی نہیں پاکستان کی بدقسمتی تھی ۔

ہماری عوام نے عافیہ کو قوم کی بیٹی کے طور پر تسلیم کیا۔انہوں نے کہا کہ آج 16 بعد پیجھے مڑ کر دیکھیں تو کتنا واضح ہے کہ جب سے عافیہ گئی ہے ہماری عافیت بھی جاتی رہی ہے۔ عافیہ قوم کی بیٹی بن گئی اور قوم بے جان مجسمہ کی مانندہو گئی۔ 2003 میں عافیہ کو اغواء کرکے خفیہ عقوبت خانے میں اس کے بچوں کی زندگی کے عوض نچوڑ ڈالا گیا۔ اس طرح ہماری قوم کو پوشیدہ طور پر جھکا کر پتھر کے زمانہ میں پہنچا دیا گیا۔

اس کے بعد 2008 سے، ہم نے عافیہ کی کھلی تذلیل اور اس پر ظلم و ستم کو دیکھاہے اور اسی طرح ہم ملک میں واضح طورپر المناک تباہی اور دہشت گردی دیکھ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس طرح عافیہ سے جو اس کی حفاظت کے ذمہ دار تھے اس سے بے وفائی کی اسی طرح ہمارے وطن عزیز کو بھی ایسے لوگوں نے لوٹااور غداری کی جنہوں نے ملک کے مفادات کی حفاظت کے حلف اٹھائے ہوئے تھے۔

جو عافیہ کو "انصاف" دینے کا دعویٰ کرتے تھے وہی پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے "امداد" اور "حمایت" پیش کرتے رہے ۔ جس طرح قوم کی بیٹی کو شرمناک طور پر سزا دی گئی ہے اسی طرح قوم کو بھی مجرم قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ کی اسٹرپ سرچ کے ذریعے ذلت اور خاندان تک رسائی کومسدود کیا گیا۔ لہذا اب تمام پاکستانیوںکی "خصوصی تلاشی" لی جاتی ہے۔

پاکستانیوں کیلئے اپنی فیملی سے ملنے کے لئے ویزے کا حصول مشکل سے مشکل تر بن چکا ہے جیسی ذلت میں قوم کی بیٹی کو رکھا گیا تو اب پوری قوم کو بھی اس کا سامنا ہے۔ہم سب پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے یہ ہمارا خاندان ہے، اچھا اور برا، خوبصورت اور بدصورت، جیسا بھی ہے ہمیں اس کا سامنا کرنا ہے۔ عافیہ کے خلاف فیصلے میں ناانصافی واضح تھی لیکن چند جراتمند افراد کے علاوہ ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

پاکستان کے خلاف الزامات غیر منصفانہ ہیں لیکن چندکے علاوہ ہمارے "دوست" خاموش ہیں ۔ قوم کی بیٹی نے سکھایا کہ سچا کون ہے۔ جیسے کہ عافیہ ایک تاریک سیل میںمقید ہے، ہمارا پیارا پاکستان بھی ایسی ہی تاریکی، افراتفری اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک ، ہمارے رہنما ، جج ، ہمارے لبرل، ہمارے قدامت پسندکہاں کھڑے ہیں۔

ہم دنیا بھر میں ہر ایک کے لئے ایک پنچنگ بیگ (punching bag) ہیں، ہم اقوام عالم کیلئے ایک آسان ہدف بن چکے ہیں۔ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہمارے نقطہ نظر اور ہماری عزت کی تضحیک کی جاتی ہے۔آج ریمنڈ ڈیوس کی آزادی اور عافیہ کی قید ہمارا منہ چڑارہی ہے اور یہ یاد دلاتی ہے کہ ہماری دنیا میں کیا وقعت ہے اور ہمارے لیڈر ہماری کتنی قدر کرتے ہیںاور کیسے ہمارے ساتھ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیںلیکن "قوم کی بیٹی" کس طرح ہمیں سیاسی، لسانی، نسلی اور مذہبی اختلافات کوپس پشت ڈال کر متحد کرتی ہے۔

آخر میں، میرے لئے یہ اعزازکی بات ہے کہ ہزاروں لوگ عافیہ کے لئے ہم سے رابطہ کرتے ہیں، لاکھوں لوگ روزآنہ اس کی رہائی کیلئے دعا کرتے ہیں اور کروڑوں لوگ اپنی ہیرو عافیہ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان عظیم لوگوں کو دیکھئے جو سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے اپنی قوم کی بیٹی کیلئے آئے ہیں۔ ان کا اس پرمشقت سفرمیں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے مگر یہ وہ لوگ ہیںجنہوں نے قومی بھائی چارے کا مطلب سمجھ لیا ہے اور جنہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کاحقیقی اور عملی مظاہرہ کرکے دکھایا ہے کہ جب جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو اس کے درد کو پورا بدن محسوس کرتا ہے۔

پیدل مارچ کے یہ شرکاء عافیہ کے سپورٹرز اور سول سوسائٹی اور حقوق انسانی کی نمائندگی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عافیہ موومنٹ اصولوں پر قائم ہے سیاست پر نہیں۔ اسکا مقصد قوم کو قومی وقار پرمتحد کرنا ہے ۔ہمارا وقار اورقومی غیرت برائے فروخت نہیں ہے، ہماری بیٹیاں اور بیٹے برائے فروخت نہیں ہیں۔ ہم ناانصافی کے شکار ہر شخص کی مدد کریں گے۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ اللہ سے عافیت اور امریکہ سے عافیہ طلب کرنے کی گھڑی آگئی ہے۔عافیہ رہائی پیدل مارچ کے شرکاء نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دیگر سماجی و سیاسی رہنمائوں کے ہمراہ اسلام آباد پریس کلب پر مظاہر ہ کرکے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو جلد وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا۔اسلام آباد کے سیاسی و سماجی رہنما زبیرفاروق خان، پاسبان اسلام آباد کے صدر سید مستنیرالحسن گیلانی، پیدل کفن پوش مارچ کے سربراہ انعام اللہ مروت و دیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر سفیان عباسی، پروفیسر افتخار آفریدی، سہیل محمود، آس محمد میو بھی موجود تھے۔