طرابلس کے نواح میں جنرل حفتراورمتحدہ حکومت کی فورسزکے درمیان خونریز جھڑپیں،بمباری سے 21افرادہلاک

جھڑپوں میں جنرل حفترکی فوج کے 14اہلکار،ریڈکریسنٹ کا ایک ڈاکٹر بھی ماراگیا،دارلحکومت کے جنوبی علاقے میں قائم ائیرپورٹ مکمل تباہ

پیر 8 اپریل 2019 13:23

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اپریل2019ء) لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے جنوبی علاقے میں جنرل خلیفہ حفترکی لیبین نیشنل آرمی (ایل این ای) اور حکومتی فورسز کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے متحارب گروپوں کی ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر بمباری کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوگئے،خلیفہ حفترکی فورسز نے اعتراف کیا ہے کہ جھڑپوں میں ان کے 14 اہلکار مارے گئے جبکہ لیبین ریڈ کریسنٹ نے کہاہے کہ ان کا ایک ڈاکٹر بھی مارا گیا ،دوسری جانب ایمرجنسی سروس کے ترجمان اسامہ علی نے کہاہے کہ حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے رضاکار تاحال جنگی مقامات پر داخل نہیں ہو پائے اورامدادی کارروائیاں شروع نہیں کی گئیں۔

وادی رابہ کے دور دراز علاقوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں دارالحکومت کے جنوبی علاقے میں قائم انٹرنیشنل ائر پورٹ تباہ ہو گیا ،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں متحدہ حکومت نے بتایاکہ لڑائی میں اب تک 21 افرادہلاک ہوئے ہیں ، لیبین نیشنل آرمی (ایل این ای) اور متحدہ حکومت (جی این ای) کی فورسز کے درمیان گزشتہ رات جھڑپوں میں تعطل کے بعد سے ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ،جی این اے فورسز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وادی رابہ کے دور دراز علاقوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں دارالحکومت کے جنوبی علاقے میں قائم انٹرنیشنل ائر پورٹ تباہ ہو گیا ہے،کرنل محمد غونو نے کارروائیوں کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ لیبیا کے تمام شہروں میں جارحیت کرنے والے اور غیرقانونی فورسز کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

متحدہ حکومت کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اب تک کم ازکم 21 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 27 افراد زخمی ہیں تاہم شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے واضح نہیں کیا گیا۔دوسری جانب ایل این اے کا کہنا تھا کہ انہوں نے طرابلس کے مضافاتی علاقے میں پہلی مرتبہ فضائی کارروائی کی ہے جبکہ عالمی سطح پر جنگ بندی کی اپیلوں کو نظر انداز کردیا گیا۔خلیفہ حفترکی فورسز نے کہا کہ گزشتہ روز ان کے 14 اہلکار مارے گئے جبکہ لیبین ریڈ کریسنٹ کا کہنا تھا کہ ان کا ایک ڈاکٹر بھی مارا گیا ہے۔

ایمرجنسی سروس کے ترجمان اسامہ علی کا کہنا تھا کہ رضاکار تاحال جنگی مقامات پر داخل نہیں ہو پائے ۔یاد رہے کہ لیبیا میں 2011 میں اس وقت کے مضبوط حکمران معمر قذافی کے خلاف عوام نے شدید احتجاج کیا تھا اور عوام کو نیٹو ممالک کا تعاون بھی حاصل تھا تاہم معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد انتظامیہ اور مسلح گروہوں کے درمیان حکومت کے حصول کے لیے لڑائی شروع ہوئی۔