وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا معاشی خوشحالی سے متعلق بیان حقائق کے برعکس ہے،میاں زاہد حسین

اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان ملک میںجاری کاروباری بے یقینی کا عکاس ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 10 اپریل 2019 19:19

وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا معاشی خوشحالی سے متعلق بیان حقائق کے برعکس ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اپریل2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 6.2فیصدکا ہدف حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2018-19میں جی ڈی پی کی شرح نمو 3.4فیصد تک بمشکل حاصل ہوگی جبکہ آئندہ مالی سال 2019-20میں 2.7فیصد تک ہونے کا خدشہ ہے۔

اگر حکومت کی طرف سے معاشی بہتری کے لئے ہنگامی اصلاحات کی جائیں تو مالی سال 2020-21سے جی ڈی پی کی شرح نمو 4فیصد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کا اتار چڑھائو پاکستان میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں میں اتار چڑھائوکی عکاسی کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایوب خان کے دور سے موجودہ حکومت تک پاکستانی معیشت مختلف سر د وگرم کا شکا ر رہی ہے۔

ایوب خان کے دور میں GDPکا اوسط 7فیصد رہا، یحییٰ خان کے دور میں 8فیصد، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 3فیصد، جنرل ضیاء الحق کے دور میں 6فیصد، محمد خان جونیجو کے دور میں 7فیصد،محترمہ بینظیر بھٹوکے پہلے دور حکومت میں 5فیصد ہوا جو نواز شریف کے پہلے دور حکومت اور بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں برقرار رہا۔ نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں جی ڈی پی کا اوسط 3فیصد ہوا اور جنرل مشرف کے مارشل لاء میں بھی یہی شرح نمو برقرار رہی تاہم ق لیگ کی حکومت میں GDPکی اوسطاً شرح نمو 6رہی جو پیپلز پارٹی کی آخری حکومت میں 3فیصد ہوئی تاہم ن لیگ کی گزشتہ حکومت میں جی ڈی پی کی شرح نمو دس سالوں کی سب سے زیادہ یعنی 5.8فیصد پر پہنچی ۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملکی معیشت کی مستحکم بنیادوں میں بہتری کے لئے ملکی پیداوار میں اضافہ ، صنعتی ترقی، کاروباری آسانی، ٹیکس کے آسان اور باسہولت نظام کے قیام، کاروباری لاگت میں کمی اور دیرپا سیاسی استحکام وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے قدرے بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں تجارتی خسارہ 14فیصد کم ہوکر 23.4ارب ڈالر ہوگیا ہے، برآمدات میں 3فیصد کی بہتری آئی ہے جبکہ درآمدات میں 6فیصد کمی آئی ہے اور ترسیلات زر میں بھی 12فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم روپے کی قدر میں تقریباً35فیصد کمی کے باوجود برآمدات میں محض 3فیصد اضافہ سوالیہ نشان ہے۔

برآمدات میں اضافہ کے لئے حکومت کو نہ صرف نئی بیرونی منڈیاں تلاش کرنی ہونگی بلکہ فری ٹریڈ ایگریمنٹس کو بھی ریویو کرکے پاکستان کے حق میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کاروباری بے یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کے لئے مزید اقدامات ناگزیر ہیں بے یقینی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں 23فیصد کمی آئی ہے، مہنگائی دس سالوں کی بلند ترین سطح یعنی 9.4فیصد پر پہنچ گئی ہے اوراپریل کے پہلے ہفتہ میں اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان رہا اور KSE-100انڈیکس38,423ہزار سے گر کر 36,921پوائنٹس پر بند ہوا جو ملک میں کاروباری بے یقینی کو واضح کررہا ہے۔ شرح نمو میں اضافہ اورملک میں معاشی استحکام کے لئے تعلیم، صحت، توانائی، انفراسٹرکچراور صنعتی ترقی کے لئے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے۔