رافیل معاہدے سے متعلق بیان، سپریم کورٹ نے راہول گاندھی سے جواب طلب کرلیا

ہمیں فراہم کردہ تمام مواد میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا جس سے حکومت کی جانب سے نجی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا الزام ثابت ہو، سپریم کورٹ

پیر 15 اپریل 2019 23:28

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اپریل2019ء) بھارتی سپریم کورٹ نے رافیل معاہدے پر عدالت سے منسوب بیان دینے پر کانگریس جماعت کے سربراہ راہول گاندھی سے جواب طلب کرلیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کہا کہ ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ راہول گاندھی کی جانب سے میڈیا اور عوام میں دیا گیا بیان عدالت سے غلط طور پر منسوب کیا گیا۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ہم نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، ہم نے صرف دستاویزات کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی سپریم کورٹ نے میڈیا کی جانب سے حاصل کی گئی دستاویزات کو رافیل جیٹ معاہدے میں ثبوت کے طور پر استعمال نہ کرنے پر حکومت کے موقف کو مسترد کردیا تھا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ رافیل معاہدے میں حکومت کو کلین چٹ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان خفیہ دستاویزات کا بھی جائزہ لیں گے۔

سپریم کورٹ کے اس بیان پر راہول گاندھی نے ردعمل دیتے ہوئے اتر پردیش کے حلقے امیتھی میں کہا تھا کہ میں سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، پورا ملک کہہ رہا ہے کہ چوکیدار چور ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ جشن کا دن ہے کہ سپریم کورٹ نے انصاف کی بات کی ہے جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے عدالت کے خلاف غلط بیان دینے اور نریندر مودی کو چور کہنے پر راہول گاندھی کے خلاف ہتک عزت اور توہین عدالت کامقدمہ دائر کیا تھا۔

پیر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے راہول گاندھی کو جواب جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی اور کہا کہ ہم نے ایسا کوئی مشاہدہ نہیں کیا جس پر راہول گاندھی نے رد عمل دیا۔واضح رہے کہ فرانس کے سابق صدر فرینکوئس ہولاندے کے انکشافات کے بعد بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے نریندر مودی پر طیاروں کے معاہدے میں سرکاری کمپنی کے بجائے نجی کمپنی کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

فرینکوئس ہولاندے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت سے 2016 میں 9.4 ارب ڈالر کے 36 رافیل جنگی طیاروں کے معاہدے میں فرانسیسی مینوفیکچرر ڈاسولٹ کو بھارتی پارٹنر کے انتخاب کے لیے کوئی آپشن نہیں دیا گیا تھا۔سیاستدانوں اور سماجی کارکنان کی جانب سے دائرہ درخواستوں میں بھارت کی سپریم کورٹ نے مداخلت سے روکتے ہوئے کہا کہ ’معاہدے کے عمل میں کوئی شبہ نہیں۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کہا کہ ہمیں فراہم کردہ تمام مواد میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا جس سے حکومت کی جانب سے نجی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا الزام ثابت ہو۔واضح رہے کہ 31 جنوری 2012 کو ہندوستانی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا تھا کہ بھارت، فرانس سے 126 رافیل لڑاکا طیارے خریدے گا۔ معاہدے کے تحت فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایوی ایشن نے 18 لڑاکا طیارے مکمل تیار کرکے بھارت کو دینے تھے اور باقی 108 طیارے بھارت کے سرکاری ادارے 'ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ' اور ڈاسالٹ ایوی ایشن کے اشتراک سے ہندوستان میں تیار ہونے تھے تاہم دسمبر 2018 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف فرانس سے 36 رافیل طیاروں کی خرید و فروخت کے معاہدے میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔