پہلے نجی سکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری سکولوں سے متعلق بھی حکومت سے پوچھیں گے، چیف جسٹس

سرکاری سکولوں کی حالت ابتر ہے،حکومت نے سرکاری سکولوں پر کوئی توجہ نہیں دی،سرکار کو اس کا جواب دینا ہو گا،تعلیم،تعلیم اور تعلیم ہی سرکار کا مقصد ہونا چاہیے،حکومت کو چاہیے سارے فنڈز کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دے، سر سید احمد خان نے کہا تھا تعلیم پر توجہ دو،تعلیم پر توجہ نہ دی تو بہت پیچھے رہ جائیں گے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

جمعرات 18 اپریل 2019 20:30

پہلے نجی سکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری سکولوں سے متعلق بھی حکومت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاہے کہ پہلے نجی سکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری سکولوں سے متعلق بھی حکومت سے پوچھیں گے، سرکاری سکولوں کی حالت ابتر ہے،حکومت نے سرکاری سکولوں پر کوئی توجہ نہیں دی،سرکار کو اس کا جواب دینا ہو گا،تعلیم،تعلیم اور تعلیم ہی سرکار کا مقصد ہونا چاہیے،حکومت کو چاہیے سارے فنڈز کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دے، سر سید احمد خان نے کہا تھا تعلیم پر توجہ دو،تعلیم پر توجہ نہ دی تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ میں پرائیویٹ سکولز کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

(جاری ہے)

وکیل سندھ حکومت نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پرائیویٹ سکولز والے سالانہ داخلے کی مد میں تین سو ملین سے پانچ سو ملین روپے کما لیتے ہیں، تین سو سے پانچ سو ملین روپے کی یہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے۔

وکیل سندھ حکومت نے کہاکہ سکول داخلے کو قبول کرنے والوں سے الگ فیس لی جاتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پرائیوٹ سکولز کے منافع میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پرائیوٹ سکولز کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، کسی سکول کی پہلے پچاس شاخیں تھی وہ سو یا ڈیڑھ سو ہوچکی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کراچی فوربیل سکول کے سالانہ منافع میں 256 فیصد اضافہ ہوا، بیکن ہاؤس سکول کو سالانہ 32.5فیصد،لاہور گرامر کو چالیس فیصد منافع ہوا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہم لوگوں کو پیسہ کمانے سے روک نہیں سکتے، کیا کسی آڈٹ رپورٹ میں کسی پرائیوٹ سکول کو نقصان ہونے کا ذکر کیا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سٹی سکول کو سالانہ 36 فیصد، گرامر سکول کو 26 فیصد لرنگ الائنس کو 36 فیصد منافع ہوا، بیکن ہاؤس کو سالانہ ایک اشاریہ چار بلین روپے کا منافع ہوا، ایک اشاریہ چار بلین ہزار کروڑ سے زائد بنتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہاکہ پرائیویٹ سکولز والوں نے اپنی سیمنٹ فیکٹریاں لگانا شروع کردی ہیں۔ چیف جسٹس نے سرکاری سکولوں کی حالت زار پر ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پہلے نجی سکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری سکولوں سے متعلق بھی حکومت سے پوچھیں گے۔انہوںنے کہاکہ سرکاری سکولوں کی حالت تو ابتر ہے،حکومت نے سرکاری سکولوں پر کوئی توجہ نہ دی،سرکار کو اس کا جواب دینا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ تعلیم،تعلیم اور تعلیم ہی سرکار کا مقصد ہونا چاہیے،حکومت کو چاہیے سارے فنڈز کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دے۔ انہوںنے کہاکہ سر سید احمد خان نے کہا تھا تعلیم پر توجہ دو،تعلیم پر توجہ نہ دی تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اگر نجی سکولوں کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری سکولوں پر بھی توجہ دیتی تو حالات یہ نہ ہوتے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے عدم دستیابی پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں ڈویژن بینچ کی دستیابی کے حوالے سے کام جاری ہے جلد ہی ججز کی تقرری کے بعد ڈویژن بینچ دستیاب ہوں گے۔کیس کی آئندہ سماعت 29 اپریل کو ہوگی۔