لاہور ہائیکورٹ میں خواجہ برادرانہ کی درخواست ضمانتوں پر فریقین کے دلائل جاری

اکائونٹ میں پیسے آنا بری بات نہیں اہم بات یہ ہے کہ کن ذرائع سے پیسے منتقل ہوئے ، لاہور ہائی کورٹ سلمان رفیق کا پیراگون سٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے خواجہ سلمان رفیق پیراگون کے بورڈ آف ڈائریکٹر شئیر ہولڈرز یاں انتظامیہ کا حصہ نہیں رہے،سلمان رفیق کے وکیل کا موقف

جمعرات 18 اپریل 2019 21:30

لاہور ہائیکورٹ میں خواجہ برادرانہ کی درخواست ضمانتوں پر فریقین کے ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2019ء) لاہور ہائیکورٹ میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی درخواست ضمانتوں پر فریقین کے دلائل جاری عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اکائونٹ میں پیسے آنا بری بات نہیں اہم بات یہ ہے کہ کن ذرائع سے پیسے منتقل ہوئیجسٹس ملک شہزاد احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے خواجہ برادران کی ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کی خواجہ سعد رفیق کی جانب سے ایڈووکیٹ امجد پرویز اور خواجہ سلمان رفیق کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے دلائل دئیے جسٹس ملک شہزاد احمد کا سلمان رفیق کے وکیل سے استفسار کیا کیا پیراگون آپکی ہے سلمان رفیق کے وکیل نے جواب دیا سلمان رفیق کا پیراگون سٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے خواجہ سلمان رفیق پیراگون کے بورڈ آف ڈائریکٹر شئیر ہولڈرز یاں انتظامیہ کا حصہ نہیں رہے عدالت نے نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا خواجہ سلمان رفیق کے اکائونٹ میں کتنی رقم منتقل ہوئی نیب وکیل نے جواب دیا کہ خواجہ سلمان رفیق کے ایک اکائونٹ میں 49 اور دوسرے میں 58 ملین کی رقم منتقل ہوئی جس پر بنچ کے سربراہ نے ریمارکس دئیے کہ اکائونٹ میں پیسے آنا بری بات نہیں یی اہم بات یہ ہے کہ کن ذرائع سے پیسے منتقل ہوئے خواجہ سلمان رفیق کے وکیل نے دلائل دئیے کہ کرپشن کرنے والا مجرم ٹیکس پئیر نہیں ہوتا کرپشن کرنے والا مجرم بینک اکائونٹس سے رقم منتقل نہیں کرتا جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو ذرائع بتانے سے استثنیٰ حاصل ہے نیب اسپیشل پراسکیوٹر نے سلمان رفیق کی بنکنگ ٹرانزیکشن کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا سلمان رفیق کے وکیل نے نیب کی جانب سے عدالت میں پیش کیے جانے والے ریکارڈ پر اعتراض اٹھا دیا اور دلائل۔

(جاری ہے)

دئیے کہ ٹرانزیکشن کا ریکارڈ بنک سے مصدقہ نہیں ریکارڈ نیب خود کا بنایا ہوا ہے ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ تین سالوں کا اور مرحلہ وار ہے پیراگون سے رقم کی اکائونٹس میں منتقلی کا الزام بے بنیاد ہے جسٹس ملک شہزاد احمد نے اشتر اوصاف سے استفسار کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپنے نے پیراگون سے 40 کینال اراضی حاصل کی آپ کہتے ہیں کہ آپ نے پیراگون کو 50 کینال اراضی دے کر 40 کینال اراضی حاصل کی عدالت نے خواجہ سعد رفیق کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ پیراگون کا ماسٹر پلان کہاں ہے جس پر وکیل نے بتایا کہ میں پیراگون کا وکیل نہیں ہوں مگر پیراگون سے متعلق معلومات فراہم کر سکتا ہوں جس پر عدالت نے قرار دیا کہ پیراگون کی منظوری اور ماسٹر پلان سے متعلق معلومات تو آپکو فراہم کرنی ہیں نیب اسپیشل پراسیکیوٹر خلیق الزمان نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا کلاسک کیس ہے عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ دونوں بھائیوں کی جانب سے پیراگون کو دی جانے والی اراضی کی مارکیٹ ویلیو کیا ہے جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے پیراگون سے تبادلہ اراضی کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ نہیں لگایا امجد پرویز نے کہا کہ نیب کا خواجہ برادران پر 8 ہزار پلاٹس کی خردبرد کا الزام لگایا عدالت نے نیب وکیل سے استفسار کیا جی بتائیں کیا اپ کو پاس خواجہ برادران کے خلاف کوئی شکایت موصول ہوئی امجد پرویز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 8 ہزار پلاٹوں کے الزام میں صرف68 شکایات نیب کو موصول ہوئیں عدالتی حکم پر پراسیکیوشن نے خواجہ بردارن کے خلاف شکایات کرنے والوں کے ناموں کی فہرست عدالت میں پیش کردی جس پر عدالت نے قرار دیا کہ اگراور بھی شکایات ہیں تو سب کے نام واضح کریں تاکہ سب معلوم ہوسکے تقریباً تین گھنٹے سے زائد وقت چلنے والی سماعت میں خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے وعدہ معاف گواہ قیصر امین بٹ کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا اور موقف دیا کہ قیصر امین بٹ نے بیان میں کہا کہ خواجہ برادران نے ندیم ضیاء کو مجھ سے متعارف کروایا عدالت نے واضیح کیا کہ قیصر امین بٹ کے بیان میں "میرا خیال ہی" کا کیا مطلب ہے وکیل نے بتایا کہ قیصر امین بٹ کے بارے سب کو معلوم ہے کہ وہ نشے کا عادی ہے قیصر امین بٹ پورے بیان میں جرم کے ارتکاب کا اعتراف نہیں کرتا عدالت نے امجد پرویز کو مخاطب کیا کہ آپ سے سوال کیا تھا کہ کیا ممبر پارلیمنٹ اس طرح کے کاروبار میں ملوث ہو سکتا ہے امجد پرویز نے عدالتی استفسار کے جواب میں عدالتی نظیروں کا حوالہ دے دیا اور کہا کہ اس سارے سکینڈل کے دوران خواجہ برادران حکومت میں نہیں اپوزیشن میں تھے خواجہ برادران کی ضمانتوں کے خلاف نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دئیے کہ خواجہ برادران کے اکائونٹس میں منتقل ہونے والی رقم کا بنک ریکارڈ موجود ہے پیراگون سے اراضی کی منتقلی کی ایکسچینج ڈیڈ موجود ہے ڈیبیونئیر کمپنی میں غزالہ سعد رفیق، شمع ندیم ، خواجہ سلمان رفیق ، حاجی امین بٹ ، قیصر امین بٹ سمیت 6 افراد نے کمپنی بنائی جب یہ کمپنی رجسٹرڈ ہوئی اس وقت خواجہ سعد رفیق ایم پی اے تھے اس کمپنی نے ائیر ہائوسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھا ائیر ائیونیو ہائوسنگ نے تمام تر اراضی اربن اور ایڈن ڈویلپرز کو فروخت کر دی خواجہ سعد رفیق کی اہلیہ اور سلمان رفیق کمپنی میں اہم کردار ادا کرتے رہے اس سارے عمل کے دوران خواجہ سعد رفیق کے بہت پرائز بانڈز بہت نکلے ہیں نیب پراسکیوٹر نے نشاندہی کی کہ2003 میں ائیر ایوینیو کی تشکیل ہوئی اس فرم کا نام 2003 میں ہی پیراگون سے تبدیل کر دیا گیا دونوں بھائیوں کے اکائونٹس میں پیراگون اور پیراگون ایگزیکٹو بلڈرز سے پیسے آتے رہے عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ خواجہ برادران اپنی ٹیکس ریٹرن میں کاروبار کیا ظاہر کرتے ہیں نیب کے اسپیشل پراسکیوٹر نے جواب دیا دونوں بھائی کہتے ہیں کہ وہ اسٹیٹس کنسلٹنسی کا کاروبار کرتے ہیں خواجہ برادران سے ان زائد اثاثہ جات سے متعلق متعدد بار سوال کیا گیا خواجہ برادران دلچسپ جواب دیتے ہیں کہ خواجہ برادران کہتے ہیں اتنا پرانا ریکارڈ موجود نہیں ہے خواجہ برادران سے پوچھا کہ آپ نے کن کن پلاٹوں سے کمیشن لی تو وہ ریکارڈ بھی موجود نہیں جسٹس مرزا وقاص رائوف کا نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا پیراگون کو خواجہ برادران کی جانب سے دی جانے والی سروسز کی تحقیقات کی گئیں اکائونٹس میں پیسے آتے ہیں مگر خواجہ برادران یہ نہیں بتاتے کہ پیسے آئے کہاں سے آئے عدالت نے ریمارکس دئیے کہ یہ ثبوت تو نیب کے پاس ہونے چاہیے، آپ صرف خواجہ سعد رفیق کے جواب پر انحصار کر رہے ہیں. نیب نے جو شواہد اکٹھے کیے وہ نیب پیش کری. نیب کے وکیل نے بتایا کہ خواجہ برادران نے کن کن سے پلاٹ لیے انکی بھی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی خواجہ برادران نے ایک ہی پلاٹ کئی لوگوں کو الاٹ کر کے خودربرد کی خواجہ برادران نے کس سے پلاٹ خریدا کو بیچا کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن مسلسل اس دوران خواجہ برادران کے اکاؤنٹس میں رقم منتقل ہوتی رہی.اس کیس کے ایک شریک ملزم نے ریکارڈ غائب کر دیا ہی. عدالت نے نیب کے سپیشل پراسکیوٹر کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی۔