مذاکرات کے اگلے دور میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی

مکمل انخلا پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم اب مزید تفصیلات وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجمان افغان طالبان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 22 اپریل 2019 11:29

مذاکرات کے اگلے دور میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر توجہ مرکوز رکھی جائے ..
کابل (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 22 اپریل 2019ء) : امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق افغان طالبان کے ایک سینئیر رکن نے کہا کہ مذاکرات کے اگلے دور میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور اس کے ٹائم فریم پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق ایک انٹرویو کے دوران طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ گذشتہ مذاکرات میں دونوں فریقین کی جانب سے مکمل انخلا پر اتفاق دیکھا گیا تھا تاہم اس میں اب صرف تفصیلات وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

ترجمان نے کہا کہ امریکہ سے مذاکرات کے گذشتہ دور میں ہم نے ان سے افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کو باہر نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس انخلا کے بدلے میں طالبان نے افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنے یا اسے دیگر ممالک پر حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا وعدہ کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ معاملات پر اب بھی تبادلہ خیال ہونا باقی ہے اور یہ مذاکرات کے اگلے دور میں ہو گا ، اس میں ملک سےغیر ملکی فورسز کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور دیگر تفصیلات کے بارے میں بات چیت ہوگی۔

واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور دوحہ میں آئندہ ہفتوں میں متوقع ہے لیکن اس حوالے سے باضابطہ طور پر کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے 6 دور پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام ڈیڈ لاک کا شکار ہو گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ افغان طالبان نے امریکی فارمولا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

عبوری حکومت کے لیے زلمے خلیل زاد اور دیگر ناموں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے دی گئی تمام تجاویز بھی مسترد کر دی تھیں۔ افغان طالبان نے سیاستدان محمد عمر داؤد زئی اور سابق وزیر انصاد عبدالستار سیرت کے نام بھی مسترد کر دیے تھے۔افغان طالبان نے افغان حکومت سمیت دیگر دھڑوں سے مذاکرات پر مشروط آمادگی بھی ظاہر کی تھی۔

جس کے بعد 9 اپریل کو طالبان نے افغان حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کے لیے رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے کوششوں میں بڑی پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکومت کے نمائندے آئندہ ہفتے دوحہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغان طالبان کی جانب سے بھی اس پیش رفت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ افغان حکومت کے کچھ حکام ان مذاکرات میں حصہ لیں گے لیکن وہ ریاستی نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں شرکت کریں گے۔