ورلڈ کپ سکواڈ پر سابق کرکٹرز کا ملا جلا رد عمل، سلیکشن کمیٹی کی خامیوں پر تنقید

عابد علی کی شمولیت سے خوشی ہوئی:رمیز راجہ ، پیس بیٹری کی قیادت کرنے والا کوئی کردار نظر نہیں آرہا:شعیب اختر

Zeeshan Mehtab ذیشان مہتاب پیر 22 اپریل 2019 16:25

ورلڈ کپ سکواڈ پر سابق کرکٹرز کا ملا جلا رد عمل، سلیکشن کمیٹی کی خامیوں ..
لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔22اپریل2019ء) قومی سلیکشن کمیٹی کے بعض فیصلوں پر عدم اتفاق کرنے والے سابق کرکٹرز کی جانب سے ورلڈ کپ سکواڈ پر ملا جلا ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا،سابق کپتان رمیز راجہ نے عابد علی کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا،سابق فاسٹ باﺅلر عبدالرﺅف کا خیال ہے کہ کرپشن اور فٹنس کو پاکستان میں ہمیشہ اپنے مفاد میں استعمال کیا جاتا ہے ،شعیب اختر کا موقف ہے کہ پاکستانی پیس بیٹری کی قیادت کرنےوالا کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق انگلش ٹور اور ورلڈ کپ کیلئے قومی ٹیم کے اعلان کے بعد سابق کرکٹرز کی جانب سے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے اور بعض معاملات پر اطمینان کا اظہار کرنے کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کی خامیوں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

سابق قومی کپتان رمیز راجہ کا میگا ایونٹ کیلئے منتخب کئے جانےوالے سکواڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ سلیکشن کمیٹی نے عابد علی کو منتخب کیا جو نئے پلیئرز کیلئے رول ماڈل بن کر سامنے آئے ہیں۔

آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں ڈیبیو پر ون ڈے سنچری سکور کرنےوالے عابد علی پہلی کوشش میں یویو ٹیسٹ کلیئر نہیں کر سکے تھے البتہ انہوں نے دوسری کوشش میں یہ مشکل مرحلہ طے کرلیا اور رمیز راجہ کا خیال ہے کہ عابد علی کا انتخاب اس لحاظ سے درست ہے کہ وہ ان کرکٹرز کیلئے مثال ہیں جو کچھ عرصے سے فرسٹ کلاس کامیابی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔دور حاضر کے بہترین کمنٹیٹر کا کہنا تھا کہ جب کوئی بیٹسمین رنز بنا رہا ہوتا ہے تو سلیکشن کمیٹی پر بھی اس کی سلیکشن کیلئے دباﺅ بڑھ جاتا ہے اور اگر فارم اچھی ہو تو ایسا بیٹسمین کسی بھی وقت بڑاسکور کر سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عابد علی کی قومی ٹیم میں اینٹری کسی پریوں کی داستان سے کم نہیں کیونکہ انہیں یہ موقع 31 برس کی عمر میں ملا ہے۔سابق فاسٹ باﺅلر عبدالرﺅف کا کہنا تھا کہ سلیکشن کمیٹی،ہیڈ کوچ اور کپتان میں ایک عرصے سے ہم آہنگی چل رہی تھی لہٰذا نہ کوئی آزمایا گیا نہ ہی کسی نئے پلیئر کو چانس دیا گیا لیکن سکواڈ کو بہتر کہا جا سکتا ہے جس میں شمولیت کیلئے عابد علی کو تھوڑی سی مشکل پیش آئی جو سلیکٹرز کی فہرست کا حصہ نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد عامر پر خراب فارم کی وجہ سے کافی عرصے سے تنقید ہو رہی تھی اور پھر محمد حسنین کی شکل میں ایک اچھا آپشن مل گیا لہٰذا یہ تبدیلی تو ہونا ہی تھی۔محمد حفیظ اور عماد وسیم کے مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود سکواڈ میں شامل کئے جانے پر عبدالرﺅف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن اور فٹنس کو ہمیشہ ہی اپنے مفاد میں استعمال کیا جاتا ہے اور دونوں کی شمولیت اسی کا عکس ہے۔

سابق فاسٹ باﺅلر شعیب اختر کا کہنا تھا کہ پاکستانی پیس بیٹری کی قیادت کرنے والا کوئی کردار انہیں نظر نہیں آرہا اور سلیکشن کمیٹی نے محمد عامر کو منتخب نہ کر کے بڑی غلطی کی ہے کیونکہ اب بائیں ہاتھ کے پیسر کی عدم موجودگی میں جنید خان اور حسن علی کو بھرپور انداز سے آگے آکر اس خلاءکو پر کرنا ہوگا کیونکہ پندرہ رکنی سکواڈ میں سب سے زیادہ تشویش کی بات اسکا پیس اٹیک ہی ہے۔راولپنڈی ایکسپریس کا کہنا تھا کہ محمد عامر ورلڈ کپ میں پاکستان کا اہم ترین ہتھیار ثابت ہو سکتے تھے البتہ ان کے پاس انگلینڈ کیخلاف کچھ کر دکھانے کا موقع ہے اور وہ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں کہ محمد عامر اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت ورلڈ کپ سکواڈ میں بھی جگہ بنا لیں۔