نیب قوانین میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کیا جاسکتا ہے ،حکومت

وزارت داخلہ کسی کی دوست ہے نہ دشمن ،کابینہ کی منظوری سے چھ اراکین قومی اسمبلی کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ،تین کو خارج کردیا گیا، ایم این ایز کا نام خارج کرنے کیلئے خفیہ اداروں سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے ۹نادرا نے بوگس اور غیر ملکیوں کے کارڈز بلاک کردیئے،وزارت داخلہ کے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جوابات

پیر 22 اپریل 2019 22:51

نیب قوانین میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کیا جاسکتا ہے ،حکومت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اپریل2019ء) حکومت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ نیب قوانین میں اگر سقم موجود ہے تو اسے دور کیا جاسکتا ہے،نادرا نے بوگس اور غیر ملکیوں کے کارڈز بلاک کردیئے ، تاہم اب بھی اس پر کام جاری ہے ، ایم این ایز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے خفیہ اداروں سے رپورٹ کے بعد عملدرآمد کیا جاسکتا ہے ،وزارت داخلہ کو نہ دوست سمجھا جائے اور نہ دشمن ، تمام تر اقدامات قانون و آئین کے مطابق ہوں گے ۔

پیر کو قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت داخلہ نے بتایا کہ نیب قوانین میں اگر سقم موجود ہے تو اپوزیشن سے بات کی جاسکتی ہے، ضمنی سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ جی ٹی روڈ تا موٹروے کشمیر ہاوے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام ہے ، سی ڈی اے نے این ایچ اے کو 16ویں اور 17ویں ایونیو پر انٹر چینجز تعمیر کرنے کی استدعا کی ہے کیونکہ ایچ 16میں ماڈل جیل منصوبہ شروع ہو چکا ہے اور اس کو راستہ کشمیر ہائی وے سے دیا جانا ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ مختلف سیکٹرز میں بالخصوص پبلک پارک میں واش روم میں گندگی کی شکایات موصول ہوئی ہیں تاہم اس ضمن میں بہت جلد اقدامات کرلئے جائیں گے اور ایک تجویز دیدی ہے کہ اگر پارک میں جانے کے لئے 10سے 20روپے فیس لگا دی جائے اور عین ممکن ہے کہ خواتین اور بچوں کے علاوہ غیر ضروری افراد کا داخلہ نہ ہو۔ای سی ایل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ موجودہ حکومت نے 461 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے ہیں ، کابینہ کی منظوری سے چھ اراکین قومی اسمبلی کے نام بھی اس لسٹ میں موجود ہیں ، تاہم تین اراکین قومی اسمبلی کے نام خارج کردیئے گئے تھے ۔

علاوہ ازیں ایم این ایز کا نام خارج کرنے کے لئے خفیہ اداروں سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے ، وزارت داخلہ آئین و قانون کے عین مطابق کام کررہی ہے اس کو دوست بھی نہ سمجھا اور دشمن بھی ۔نادرا سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ ماضی میں چند غیر ملکیوں سمیت دیگر افراد کے سی این آئی سی بوگس بنوائے گئے تھے جن کو منسوخ کردیا گیا ہے ،پی او آر کارڈز کے ساتھ ڈیٹا ملانا مجاز تصدیقی ایجنسیوں یعنی آئی ایس آئی ، آئی بی ، سپیشل برانچ کی رپورٹ کے تحت مختلف سرکاری محکموں کی رپورٹس پر سنجیدگی سے نوٹس لیا جاتا ہے اور کسی ملازم کے ملوث ہونے کی صورت میں ملزم کیخلاف آئینی و قانونی ضوابط کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

ایئرپورٹس پر سرکاری ملازمین کیخلاف شکایات کے اندراج کے لئے روزنامچہ مرتب کیا جاتا ہے جو کہ ایئرپورٹس پر ایف آئی اے ، امیگریشن سمندر پار پاکستانیز کے ساتھ روا رکھے جانیوالے برتائو سے متعلق ہوتا ہے ،2016ء تا اکتوبر2018ء کے درمیان متعدد ایئرپورٹس پر جوشکایات کا اندراج ہوا ان میں سے کراچی پانچ ، فیصل آباد اور ملتان میں زیرو ، علامہ اقبال ایئرپورٹ 27 ، باچا خان چھ اور نیواسلام آبادایئرپورٹ پر 36شکایات کا اندراج کیا گیا ہے۔

اتوار بازاروں میں خریداری سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ تقریباً 80ہزار سے زائد افراد جمعہ ، منگل اور اتوار بازار ایچ نائن میں آتے ہیں ، پیدل چلنے والے افراد کے لئے زیر زمین گزر گاہ تعمیر کی گئی ہے۔منشیات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزرارت انسداد منشیات کا کہنا تھا کہ منشیات کی روک تھام کے لئے قوانین میں بھی ترمیم کی جارہی ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ چند سالوں میں ملک کو منشیات سے پاک کیا جائے ۔

تجاوزات کیخلاف آپریشن اور ان کا ملبہ تاحال نہ اٹھانے پر وزارت داخلہ نے کہا کہ ملبہ اٹھانے کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا اب دوبارہ نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں ، ایک ماہ کے اندر ملبہ نہ اٹھایا گیا تو سی ڈی اے تمام تر ملبہ اٹھا کر قبضے میں لے لی گی۔