ایران سے تیل خریدنا بند کرو‘امریکی صدر ٹرمپ کا اتحادیوں کو بھی سزا دینے کا اعلان

ایران کے تیل کی بر آمدات کو صفر پر لانے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ اٴْن ممالک کو نشانہ بنارہی ہے جو ایران کیلئے سب سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہیں

منگل 23 اپریل 2019 13:07

ایران سے تیل خریدنا بند کرو‘امریکی صدر ٹرمپ کا اتحادیوں کو بھی سزا ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2019ء) امریکا نے ایران سے تیل خریدنے والے ملکوں کا استثنیٰ آئندہ ماہ (مئی) سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جن ملکوں کو یہ استثنیٰ حاصل ہے ان میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، ترکی، اٹلی اور یونان شامل ہیں۔چین اور ترکی نے ایران پر امریکی پابندیوں کو مسترد کردیا ہے ۔ایران نے پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چینی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے تہران کیساتھ دوطرفہ تجارت قانون کے مطابق ہے ۔ ترک وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ ہم ایران پر نئی امریکی پابندیوں کو نہیں مانتے اورہمیں یہ نہیں بتایا جائے کہ اپنے پڑوسیوں سے کس طرح تعلقات قائم کرنا چاہئیں۔

(جاری ہے)

امریکا نے کہا ہے کہ وہ تہران کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت اقدامات کرتے ہوئے ایرانی تیل خریدنے والے بھارت جیسے دوست ممالک پر بھی پابندی عائد کرنا شروع کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق ایران کے تیل کی بر آمدات کو صفر پر لانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ اٴْن ممالک کو نشانہ بنارہی ہے جو ایران کے لیے سب سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے والے اس فیصلے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں 2019ء کی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں،خام تیل کی قیمت 73.87 ڈالر فی بیرل ہوگئی حتیٰ کہ وائٹ ہائوس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ایرانی تیل کی برآمدات روکنے سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی قلت کو سعودی عرب جیسے امریکا کے اتحادی ممالک پورا کریں گے۔

وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ امریکا تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک سے رابطے میں ہے تاکہ دنیا بھر میں تیل کی سپلائی کو متوازن رکھا جا سکے۔ امریکا کے تازہ ترین اعلان کے بعد دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ انٹرنیشنل بینچ مارک برینٹ کی قیمتوں میں 2.6 فیصد اضافہ ہوا اور اب یہ 73.87 ڈالر فی بیرل ہوگئیں، جبکہ امریکی کروڈ کے نرخوں میں 2.4 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 65.52 ڈالرز فی بیرل ہوگئے۔

سعودی عرب اور دیگر اوپیک ممالک نے پیداوار ڈرامائی حد تک کم کر دی ہے اور اب جبکہ سعودی عرب کی جانب سے پیداوار میں اضافہ متوقع ہے، اٴْس وقت وینزو یلا میں جاری بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی سپلائی بگڑنے کا امکان ہے۔وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے اتحادی ایران پر معاشی دباؤ بڑھانے کے لیے پر عزم ہیں تاکہ ایران کی جانب سے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا خاتمہ ہوسکے جس سے امریکا، اس کے شراکت دار اور اتحادی سمیت مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی کو بھی خدشات ہیں۔

امریکا کی جانب سے گزشتہ سال ایرانی تیل پر لگنے والی پابندیوں کے تحت 8 ممالک کو 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس پابندی سے رعایت کی مدت 4 مئی کو اختتام پذیر ہوگی۔ان میں بھارت بھی شامل ہے جس کے واشنگٹن سے گہرے تعلقات ہیں تاہم وہ امریکا کے ایران کو خطرہ سمجھنے کے بیانیے کی نفی کرتا آیا ہے۔سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومیو نے زور دیا کہ امریکا 2 مئی کے بعد ایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے واضح کردیا ہے کہ اگر آپ نے ہماری بات نہیں مانی تو آپ کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔دیگر ممالک میں یونان، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان شامل ہیں جنہوں نے تہران سے تیل کی خریداری میں پہلے ہی کمی کردی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق بھارت، ایران سے 3 لاکھ بیرل یومیہ تیل کی خریداری جاری رکھنا چاہتا ہے جس کے لیے امریکا کے ساتھ پابندیوں سے رعایت کی مدت میں توسیع کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں۔

یہ مذاکرات، حال ہی میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان مسئلہ بن کر سامنے آئے اور امریکا نے بھارت کا ترجیحی درجہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے تحت امریکا کو جانے والی بھارت کی 5 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کی برآمدات پر ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل تھا۔خیال رہے کہ امریکا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور دیگر 6 ممالک کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے بعد گزشتہ برس نومبر میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں تھیں۔

تاہم امریکا نے ایرانی تیل کے بڑے خریداروں، چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، ترکی، اٹلی اور یونان کو پابندیوں سے رعایت دیتے ہوئے محدود پیمانے پر ایران سے تیل خریدنے کی اجازت دی تھی لیکن امریکا کی جانب سے ان ممالک پر تیل کی خریداری ختم کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔یہ بات مدِ نظر رہے کہ اس پابندی سے رعایت کی مدت 4 مئی کو اختتام پذیر ہوگی۔