کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جس کو سیاسی فائدے کے لئے مختلف انتظامی اداروں میںتقسیم کیا گیا،وسیم اختر

ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں مگر ہم ان کودہرا نہیں رہے بلکہ درست کررہے ہیں، کراچی کی اکثریت گندا پانی پیتی ہے ،وسیم اختر کا پروگرام سے خطاب

بدھ 24 اپریل 2019 17:34

کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جس کو سیاسی فائدے کے لئے مختلف انتظامی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2019ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جس کو سیاسی فائدے کے لئے مختلف انتظامی اداروں میںتقسیم کیا گیا تاکہ میئر کے پاس اختیار ہی نہ رہے، ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں مگر ہم ان کودہرا نہیں رہے بلکہ درست کررہے ہیں، کراچی کی اکثریت گندا پانی پیتی ہے مگر وفاقی وصوبائی حکومت کی کوئی توجہ نہیں، گرمیوں میں پانی کا قحط پڑنے والا ہے، سندھ حکومت کے ایڈیشنل سیکریٹری نے آڈٹ کیا کے ایم سی میں کوئی گھوسٹ ملازم نہیں ملا، حکومت سندھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے آکٹرائے ٹیکس سے ہر ماہ 40 کروڑ روپے سے زائد منہا کرلیتی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو مقامی ہوٹل میں روٹری کلب کراچی کے زیراہتمام منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تقریب سے انجم نثار، اقبال غازی سمیت روٹری کلب کے دیگر ممبران نے بھی خطاب کیا اور میئر کراچی سے سوالات کئے، میئر کراچی نے کہا کہ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں سیاسی فائدے کے لئے شہر کو 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز، 3ترقیاتی اداروں ،ایس بی سی اے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور واٹر بورڈ جیسے اداروں میں تقسیم کر کے حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور میئر کو اختیار ات سے محروم کر کے شہرمیں ترقیاتی کاموں اور شہریوں کی خدمت سے روک دیا گیا، میں نے وزیراعلیٰ سندھ سمیت وزیراعظم پاکستان سے درخواست کی کہ کراچی کے مسائل کے حل پر توجہ دی جائے مگر زبانی جمع خرچ سے آگے بات نہیں بڑھتی، 18ویں ترمیم کا سندھ کے عوام کو نقصان ہوا حکومت سندھ نے ابھی تک PFC کا ایک اجلاس بھی نہیں بلوایا تاکہ طے شدہ فارمولے کے تحت اضلاع کو ان کا حصہ دیا جائے ،انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ ہمارے آکٹرائے ٹیکس کے طے شدہ حصے سے 40 کروڑ روپے سے زائد ماہانہ کاٹتی ہے جبکہ ریونیو کے محکمے بھی اپنی تحویل میں لے رکھے ہیں جس کی وجہ سے کے ایم سی مالی بحران کا شکار ہے اور ہر ماہ صرف تنخواہوں کی مد میں 7کروڑ روپے کا شارٹ فال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو بروقت تنخواہ اور پینشن نہیں ملتی، میئر کراچی نے کہا کہ اگر کے ایم سی کے اپنے ریونیو کا حصہ ہی مل جائے تو مالی بحران ختم اور شہر میں ترقیاتی کام بھی ہوں مگر حکومت سندھ نے ہمارے آکٹرائے کے شیئر کو کاٹ کر میگاپروجیکٹ کے نام سے منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں تاکہ شہریوں پر یہ تاثر قائم ہو کہ حکومت ترقیاتی کام کررہی ہے یہ خالصتاً سیاسی اور بدنیتی پر مبنی عمل ہے، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 162ارب کے منصوبے پر عملدرآمد مشکل ہے کیونکہ جب تک صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک پیج پر نہیں آئیں گی اس پیکیج پر عملدرآمد مشکل ہے، انہوںنے کہا کہ کے ایم سی کے امیج اور ایم کیو ایم کو بدنام کرنے کیلئے افواہیں پھیلائی گئیں کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین ہیں جب تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوا جو حکومت سندھ کے ایڈیشنل سیکریٹری نے کیاتو کوئی ایک گھوسٹ ملازم نہیں نکلا البتہ ایڈمنسٹریٹروں کے دور میں جو ملازمین آدھی تنخواہ ادا کرکے غیر حاضر رہتے تھے ان کو میرے آنے کے بعد ڈیوٹی پر حاضری کا پابند کردیا گیا اس وجہ سے اسپتالوں سمیت ہر شعبہ میں بہتری آرہی ہے، زرداری صاحب جب صدر تھے میں نے ان سے بھی کہا تھا کہ ہاکس بے روڈ اور کراچی ،حیدرآباد ہائی وے تعمیر کرلیں لوگ آپ کو یاد رکھیں گے مگر کسی نے بھی کراچی کے لئے کوئی کام نہیں کیا کیونکہ کوئی مخلص نہیں ہے، اس لئے ہم نے کراچی کے مخیر حضرات سے رابطہ کیا اور اسپتالوں اور پارکوں میں بہتری کے لئے ان سے مدد حاصل کی، ہم اپنی کوششیں تو کر رہے ہیں مگر یہ مستقل حل نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کی بہتری کے لئے تمام لوگ مل کر کام کریں اور شہری مسائل کے جلد از جلد حل کے لئے کوششیں بروئے کار لائیں۔