بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سے سب پریشان ہیں، میاں زاہد حسین

افغانستان کو کسی صورت میں واہگہ بارڈر تک رسائی نہ دی جائے، سہہ فریقی ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ ایگریمنٹ ملکی سا لمیت سے زیادہ اہم نہیں

بدھ 24 اپریل 2019 20:38

بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سے سب پریشان ہیں، میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 اپریل2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں دوبارہ دہشت گردی شروع ہو گئی ہے جس نے عوام اور کاروباری برادری کو پریشان کر دیا ہے۔عام خیال تھا کہ دہشت گردی کے واقعات پر قابو پا لیا گیا ہے مگر حالیہ کاروائیوں سے پتہ چلا کہ وہ فعال ہیں اورملک و قوم کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔

حکومت اور فوج دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کرے تاکہ انکا حوصلہ ٹو ٹ جائے اور عوام سکھ کا سانس لیں۔میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہاہے کہ ملکی معیشت کی حالت بری ہے، عوام پریشان ہیں، توانائی کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جبکہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔

(جاری ہے)

ان نازک حالات میں افغانستان کو کسی صورت میں واہگہ بارڈر تک رسائی نہ دی جائے کیونکہ اس سے پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

افغانستان سے ٹرکوں کا پاکستان کے راستے بھارت تک آنا جانا ملکی سیکورٹی کے لئے بڑا رسک ہو گا۔ افغانستان کو زمینی راستہ نہ دینے پر پاکستان افغانستان تاجکستان ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ ایگریمنٹ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے کیونکہ افغانستان دونوں معاملات کو مشروط کرنا چاہتا ہے مگر اسکی بات ماننے سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ خیبر پاس اکنامک کاریڈور کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس سے چار ملکوں کو فائدہ ہونا ہے جبکہ نصف ارب ڈالر پاکستان کے خرچ ہونا تھے۔ جب تک افغانستان کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا حکومت پشاور سے طورخم تک تجارتی سہولیات بڑھانے میں کوئی سرمایہ کاری نہ کرے اور اسے افغانستان کی جانب سے طورخم بارڈر کی دوسری طرف اسی طرح کی سرمایہ کاری سے مشروط کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ امسال فروری میں افغانستان نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے زریعے بھارت سے تجارت شروع کر دی ہے ۔بھارت نے اس بندرگاہ کو بہتر بنانے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب افغانستان کی تجارت ایران کے راستے سے ہو رہی ہے تو پھر پاکستان سے زمینی راستہ مانگنے کا کیا جواز ہے۔