ملک کی مجموعی برآمدات میں فیصل آباد کا حصہ 38 فیصد جبکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 55 فیصدتک پہنچ گیا

جمعرات 25 اپریل 2019 14:42

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2019ء) ایوان صنعت و تجارت فیصل آباد کے ترجمان نے بتایاکہ پاکستان کے معاشی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے باوجود فیصل آباد کو پالیسی سازی میں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے قومی معیشت اور بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبہ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد ملک کی مجموعی برآمدات میں 38 فیصد جبکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 55 فیصد کا حصہ ڈال رہا ہے لیکن اب مسلسل پالیسی سازی میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا شروع سے ہی یہ مئوقف رہا ہے کہ حکومت ریسورس موبلائزیشن کیلئے ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھائے ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت اور بزنس کمیونٹی کی کوششوں کے باوجود متعلقہ ادارے کسی نہ کسی طرح پالیسی سازی کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی شق ڈالنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان پالیسیوں سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات میں مسلسل کمی کے ساتھ ساتھ درآمدات اور برآمدات میں فرق اتنا زیادہ بڑھ گیا جوہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر برآمدات اور درآمدات کے فرق کو قابو کرنے کے سلسلہ میں اپنے طور پر غیر ملکی منڈیوں کیلئے تجارتی وفود بھیج رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی حجم میں کمی کی بڑی وجہ پالیسیوں میںتسلسل کا فقدان اور کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں اس وقت بجلی اور گیس کے ریٹ پورے خطہ میں سب سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی منڈیوں میںدیگر ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر پارہیں اور ان میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔انہوں نے ٹیکسیشن کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کئی شعبے ٹیکس سے مستثنیٰ جبکہ اس کے برعکس دوسرے شعبوں پر ٹیکسوں کا سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نظام یکساں اور کسی ا ستثنیٰ کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ معیشت کے تمام شعبے اپنی آمدن کے حساب سے قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پبلک سیکٹر میں چلنے والے تمام غیر منافع بخش اداروں کی فوری نجکاری کرنی ہو گی تاکہ قومی خزانے سے ان کا خسارہ پورا کرنے کی بجائے یہ رقم غربت کے خاتمے پر خرچ کی جا سکے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیسکو کی وصولیوں کی شرح 99 فیصد اور لائن لاسز ملک بھرسے کم ہیں لیکن نیشنل گرڈ سے منسلک ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں ہونے والی بجلی چوری اور لائن لاسز کا بوجھ ہم پر بھی ڈال دیا جاتا ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ۔انہوں نے کہا کہ صارفین فیسکو کواچھی کارکردگی کی سزا نہ دی جائے بلکہ اس کی کارکردگی کے اعتراف میں ہمیں بجلی کا اضافی کوٹہ دیا جائے ۔