Live Updates

پی ٹی ایم جن لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر کام کررہی تھی اس کا وقت ختم ہوگیا ، پاک فوج

جتنی چھوٹ لینی تھی لے لی ، اب بہت ہوگیا ، آرمی چیف نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ان سے پیار سے بات کرنی ہے ورنہ ان کو ڈیل کرنا مشکل بات نہیں ، آپ فوج سے کس بدلے کی بات کررہے ہیں ، کوئی ریاست سے لڑائی نہیں کرسکتا ، ڈی جی آئی ایس پی آر پی ٹی ایم کیخلاف قانونی طریقہ کار استعمال کیاجائیگا ، کوئی غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا ، جن لوگوں کو آپ ورغلا رہے ہیں ان پر قابو پانا مشکل کام نہیں ، ترجمان بھارت نے اس مرتبہ کوئی غلطی کی گئی تو اندازہ ہوجائیگاپاکستان کیاہے،بھارت کچھ کرناچاہتاہے توپہلے بھارتی جہازوں کے گرنے کوذہن میں رکھے،مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا،تمام علما کرام اس بات سے متفق ہیں انہیں قومی دھارے میں لایا جائے ، ایسا نصاب بنایا جائے گا جس میں منافرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی، آرمی چیف کا مقصد ہے اپنے فقہ کو مت چھوڑو اور دوسرے کو مت چھیڑو،ہمارا دل نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی لاپتہ ہو، لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، پی ٹی ایم پر میڈیا پر بحث نہیں کرائیں گے، ٹی وی چینلز ایک دن مجھے دے دیں، میں موضوع دوں گا اس پر ماہرین کو بلائیں، عدالتی اور پولیس اصلاحات پر بات کریں،ہمارا حوصلہ نہ آزمائیں، وقت آیا تو پاک فوج عوام کی مدد سے بھرپور دفاع کرے گی ، یہ 1971 نہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات ہیں نہ وہ عوام ، اگر موجودہ پاکستانی میڈیا 1971 میں ہوتا تو بھارت کی سازشیں بے نقاب کرتا اور آج مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا، میڈیا کا پہلے بھی اور آج بھی بہترین کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں، بریفنگ ترجمان نے پختون بھائیوں کیلئے سپیشل پشتوں میں بھی خطاب کیا

پیر 29 اپریل 2019 22:08

پی ٹی ایم جن لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر کام کررہی تھی اس کا وقت ختم ..
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2019ء) ڈی جی آئی ایس پی آرمیجرجنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جن لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر کام کر رہی ہے اس کا وقت ختم ہوگیا، جتنی چھوٹ لینی تھی لے لی اب بہت ہوگیا،، آپ فوج سے کس بدلے کی بات کر رہے ہیں، کوئی ریاست سے لڑائی نہیں کرسکتا، اگر آرمی چیف نے پہلے بات نہ کی ہوتی کہ ان سے پیار سے بات کرنا ہے ورنہ ان کو ڈیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، ان کے خلاف غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا، جو بھی ہوگا قانونی طریقے سے ہوگا، جن لوگوں آپ ورغلارہے ہیں ان پرقابوپانا مشکل کام نہیں، بھارت نے اس مرتبہ کوئی غلطی کی گئی تو اندازہ ہوجائیگاپاکستان کیاہے،بھارت کچھ کرناچاہتاہے توپہلے بھارتی جہازوں کے گرنے کوذہن میں رکھے،مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا،تمام علما کرام اس بات سے متفق ہیں انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور ایسا نصاب بنایا جائے گا جس میں منافرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی، آرمی چیف کا مقصد ہے اپنے فقہ کو مت چھوڑو اور دوسرے کو مت چھیڑو،ہمارا دل نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی لاپتہ ہو، لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، پی ٹی ایم پر میڈیا پر بحث نہیں کرائیں گے، ٹی وی چینلز ایک دن مجھے دے دیں، میں موضوع دوں گا اس پر ماہرین کو بلائیں، عدالتی اور پولیس اصلاحات پر بات کریں،ہمارا حوصلہ نہ آزمائیں، وقت آیا تو پاک فوج عوام کی مدد سے بھرپور دفاع کرے گی اور تاریخ دہرائے گی، یہ 1971 نہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات ہیں، اگر موجودہ پاکستانی میڈیا 1971 میں ہوتا تو بھارت کی سازشیں بے نقاب کرتا اور آج مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا، میڈیا کا پہلے بھی اور آج بھی بہترین کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

ترجمان نے پختون بھائیوں کیلئے سپیشل پشتوں میں بھی خطاب کیا ۔ سوموار کے روز میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (اّئی ایس پی اّر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اّصف غفور ملک کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال، پاک- بھارت کشیدگی اور دیگر امور پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے کشیدگی سے متعلق 22 فروری کو بات چیت کی تھی جب انہوں نے ہم پر پلوامہ کے الزامات عائد کیے تھے، میں نے اس وقت وجوہات کا ذکر کیا تھا کہ پاکستان کس طرح اس حملے کے ساتھ ملوث نہیں، ساتھ ہی بھارت کو یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحقیقات کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کریں، اس کے بعد 26 فروری کی صبح انہوں نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جسے ہم نے ناکام بنایامیں نے نوٹس بھی دیا تھا کہ اب ہمارے جواب کا انتظار کریں کیونکہ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کے لیے مجبور ہوں گے، پھر 27 فروری کو بھرپور جواب دینے کے بعد ان کے 2 جہاز گرانے اور ایک پائلٹ گرفتار کرنے کے بعد بات چیت کی اور تفصیلات بتائی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ آج 27 فروری کو گزرے 2 ماہ ہوگئے لیکن بھارت ان گنت جھوٹ بولے جارہا ہے، ہم نے ذمہ دار ملک کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی لفظی اشتعال انگیزی کا بھی جواب نہیں دیا، یہ نہیں کہ ہم جواب نہیں دے سکتے، وہ جھوٹ بولیں اور ہم ان کا جواب دیں، جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے جبکہ سچ ایک مرتبہ کہا جاتا ہے تو ہم نے ان کے ان جھوٹوں کا بھی جواب نہیں دیا اور ذمہ دار رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ان کو بار بار جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے، حقیقت یہ تھی کہ پلواما میں ایک واقعہ ہوا اور وہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا پولیس کے خلاف اس قسم کے حملے وہاں 3 ، 4 سال سے جاری ہیں،اسی قسم کے واقعات ایک مقامی ایکشن کے طور پر پولیس کے خلاف پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کی فضائی کارروائی ناکام بنائی، نہ ہمارا کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی انفرااسٹکچر کو کوئی نقصان پہنچا، یہ صرف مقامی میڈیا نے نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی دیکھا بلکہ ہم نے تو میڈیا کو بھی اس جگہ کا دورہ کروایا اور اگر اب بھی انہیں تسلی نہیں تو بھارت اپنا میڈیا یہاں بھیج دے، پاک فضائیہ نے بھارت کے 2 طیارے گرائے لیکن بھارت جھوٹ بولتا رہا لیکن ہم نے ان کے جھوٹ کا جواب نہیں دیابھارت کا کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوا، انہوں نے ہمارے ایف 16 گرانے کا دعویٰ کیا جبکہ ایسا کچھ تھا ہی نہیں کیونکہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے آپ نے رات میں کارروائی کی کوشش کی ہم نے دن میں کارروائی کی اور جہاں ہمارے میزائل گرے وہاں کون موجود تھا یہ بھی بتایا جائے، آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ تبدیل کرنا ہے لیکن آپ تو یہ نہیں کرسکے ہم نے آپ میں تبدیلی ڈال دی ہے لیکن آپ ہمارے اندر تبدیلی ڈالنا چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے جو کردار ادا کیا اگر وہ نہ کرتا تو آج مشرق پاکستان الگ نہ ہوتا جبکہ ہمارے میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا لیکن آپ کے میڈیا کو رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کی سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی 25 سے 30 سال کے درمیان ہے، ان بچوں نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد ملک میں دہشت گردی، آپریشن اور امن و امان کی صورتحال دیکھی 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا، ہماری جی ڈی پی بہت اچھی تھی، ہمارے یہاں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر تھی، بین المذاہب ہم آہنگی تھی لیکن پھر ایسا ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات ہوئیں۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ 4 ایسی وجوہات ہیں جس سے یہ سب ہوا، پہلا یہ کشمیر کا معاملہ کیونکہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور یہ ہمارے نظریے کے ساتھ ہے، ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کہ کشمیر کو ہم نے آزاد کرانا ہے، اس کے لیے کئی جنگیں ہوئیں، دوسرا یہ پاکستان کی ایک جغرافیہ ہے خطے میں افغانستان میں 40 سال سے پہلے سوویت یونین آئی پھر نائن الیون کے بعد امریکی فورسز آئیں تو خطے کے اندر بین الاقوامی پراکسیز چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں 1979 کے بعد افغان جنگ کے ساتھ ایک جہاد کی ترویج شروع ہوئی، ساتھ ہی ایران میں انقلاب آیا جس کا ہمارے معاشرے پر یہ اثر ہوا کہ مدرسے بڑھنے شروع ہوگئے ان میں جہاد کی تر ویج زیادہ ہوگئی،افغانستان میں جو جنگ چل رہی تھی اسے جائز قرار دے کر اس حساب سے فیصلے لیے گئے اور اس طریقے سے پاکستان میں ایک جہاد کی فضا قائم ہوگئی، اس کے علاوہ خطے میں دوسری پراکسیز تھیں، سعودی عرب اور ایران ان کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔

انہو ں نے کہا کہ 11 ستمبر کے بعد جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اس سے ہمارے خطے میں طاقت کی بنیاد پر مقابلہ جیوپولیٹیکس کے ساتھ ساتھ جیو اکانومی پر بھی شروع ہوگئی، امریکا کے اپنے مفادات ہیں، چین کے اپنے، بھارت کے اپنے اور ہمارے اپنے مفادات ہیں تو بین الاقوامی قوتوں نے چاہا کہ ان کی سوچ اور ان کے فائدے کے مطابق پاکستان کی پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے، اس حساب سے ایک ماحول بنتا ہے کہ کس طریقے سے بین الاقوامی قوتیں اس فریم ورک میں لانے کے لیے کوشش کرتی ہیں طاقت کے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں، کس کس قسم کے حملے ہوتے ہیں جنہیں ہم ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کہتے ہیں وہ چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں جو اسلام کے خلاف باتیں شروع ہوئی ہیں، اس پر یہاں کے عوام کے دل میں درد ہوتا ہے، ان چیزوں کی وجہ سے 4 دہائیاں پاکستان کو اس دہانے پر لے کر آئیں۔ان تمام چیزوں پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستان میں جب دہشت گردی آئی تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بنایا جبکہ 2016 میں آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے جو 40 سال پہلے بویا وہ کاٹا بھی، جس پر کہا گیا کہ فوج نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ریاست پاکستان بہت عرصہ پہلے فیصلہ کرچکے تھی کہ ہم نے اپنے معاشرے کو انتہاپسندی سے پاک کرنا ہے، جو کالعدم تنظیمیں ہیں ان سے متعلق یکم جنوری کو فیصلہ ہوگیا تھا لیکن مالیاتی مسائل تھے، جس کے بعد فروری میں اس کا دوبارہ اعلان کیا گیا اور فنڈز بھی جاری کیا۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ان تنظیموں کا ہسپتال، مدرسے اور فلاحی کاموں کو حکومت نے اپنے زیر اثر لینے کا فیصلہ کیا، پاکستان کا تعلیمی نظام یہ ہے کہ ہمارا نمبر دنیا میں 129 پر ہے اور ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیںپاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسے ہیں جس میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس میں 70 فیصد ایسے مدرسے ہیں جہاں ایک ہزار ماہانہ خرچ ہوتا ہے جبکہ 25 فیصد ایسے ہیں جس میں تھوڑا زیادہ خرچ ہوتا ہے اور 5 فیصد مدرسوں کا انفرااسٹرکچر زیادہ اچھا ہے جہاں 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا اور حکومت نے ان تمام مدرسوں کو وزارت تعلیم میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تمام علما کرام اس بات سے متفق ہیں کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور ایسا نصاب بنایا جائے گا جس میں منافرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی آرمی چیف نے بنھی تما م علما ء کر ام سے ملا قا ت کر کے ان کو اعتما د میں لیا جس پر تما م علما ء کر ام نے حامی بھری ۔

پراکسیز کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہمارا دفتر خارجہ بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہم نے پاکستان میں وہ ماحول دینا ہے جس سے سوشل اکنامک سرگرمیاں ہوں۔اپنی بات چیت کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب یہ موومنٹ شروع ہوئی تو سب سے پہلے ان سے میری بات ہوئی، آرمی چیف نے کہا کہ یہ غلط بات بھی کہیں تو ان پر سخت ہاتھ نہیں رکھنا کیونکہ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے شروع سے جنگ دیکھی ہے پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی تو محسن داوڑ نے اگلے دن کہا کہ آپ نے اعلان کردیا ہے، میری محسن داوڑ، ان کے رہنماؤں سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ان کے 3 مطالبات ہیں ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ بارودی سرنگیں (مائنز) ہیں، چونکہ ان علاقوں میں جنگ ہوئی ہے، وہاں دیسی ساختہ بم پڑے ہیں، یہ جائز مطالبہ تھا، اس پر ہم نے کام بھی کیا اور 48 ٹیمیں تعینات کی اور انجینئرز کی ان ٹیموں نے 45 فیصد علاقے کو مائنز سے کلیئر کیا فوج جن علاقوں کو کلیئر کروانے جاتی ہے وہ علاقے موت ہیں اور اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی کہ یہاں دیسی ساختہ بم موجود ہیں یہاں کا رخ نہ کریں، بچوں اور جوانوں کو بتایا گیا کہ اس کی ساخت کیا ہے، نظر آئے تو اسے ہاتھ نہ لگائیں ہمیں اطلاع دیں جب سے ان 48 ٹیموں نے یہ کلیرنس آپریشن شروع کیا ہے تو اس کے باوجود پاک فوج کے 101 جوان شہید ہوئے ہیں، یہ کس لیے شہید ہوئے، یہ سب اپنا کام کرتے ہوئے شہید ہوئے لیکن اس لیے کام کیا کیونکہ مطالبہ بھی جائز تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں، اس پورے آپریشن کے دوران 6 ہزار پاک فوج کے جوانوں نے جانوں کا نظرانہ دیا، یہ جو پشتونوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں یہ اس وقت کدھر تھے جب لوگوں کے گلے کاٹے جارہے تھے، آج جب بحالی کا کام شروع ہوگیا تو تحفظ کی بات کر رہے ہیں تیسرا ان کا مطالبہ لاپتہ افراد کا تھا، اس سلسلے میں کمیشن بنایا گیا جس کے کیسز سنے جارہے ہیں، یہ مطالبات ان کے نہیں بلکہ ان بھائیوں کے ہیں جو ان علاقوں میں رہتے ہیں ہم نے اس پر بھی کام کیا انہو ں نے جو لسٹ دی تھی وہ تقریبا 6500تھی جو اب کم ہو کر 2500تک رہ گئی ہے ۔

اس موقع پر میجر جنرل آصف غفور نے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) سے 5 سوالات کیے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیل دی گئی ہے کہ یہ بیرون ملک جہاں بھی پٹھان ہیں ان سے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جو آپ نے ویب سائٹ پر تفصیل دی ہے اس سے بہت زیادہ پیسہ اکٹھا ہوا ہے پی ٹی ایم بتائے ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور یہ کہاں سے آیا ہے مالی معاملات سے متعلق 22 مارچ 2018 کو این ڈی ایس نے انہیں احتجاج جاری رکھنے کے لیے کتنے پیسے دیی کہاں دیے اور وہ کہاں ہیں ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں سب سے پہلے دھرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے پی ٹی ایم کو کتنے پیسے دیے، کس طریقے سے پہنچے اور انہوں نے کہاں استعمال کیی 8 اپریل 2018 کو قندھار میں قائم بھارتی قونصل خانے میں منظور پشتین کا کون سا رشتے دار تھا جو وہ اس قونصل خانے میں گئے، اس سے ملاقات ہوئی ساتھ میں ایک دوست بھی تھا، انہیں کتنے پیسے دیے اور وہ پاکستان کیسے آئی 8 مئی 2018 کو جلال آباد میں قائم بھارتی قونصل خانے نے طورخم میں احتجاجی ریلی کے لیے کتنے پیسے دیے، وہ پیسے کس طریقے سے آئے اور کہاں ہیں ۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم والے کدھر تھے جب ان کے گلے کٹ رہے تھے اور فٹ بال کھیلی جارہی تھی، پی ٹی ایم والے ہر پاکستان مخالف شخص سے کیوں ملتے ہیں اور فوجی کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے، اس علاقے میں جو فوج کی سپورٹ میں بولے وہ ماراجاتاہے، فوج سے کیا بدلہ لینے کی بات کرتے ہیں، اگر آرمی چیف نے پہلے بات نہ کی ہوتی کہ ان سے پیار سے ڈیل کرنا ہے ورنہ ڈیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، پی ٹی ایم کو دی گئی مہلت اب ختم ہوگئی، انہوں نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی، لیکن ان کے خلاف غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا، جو بھی ہوگا قانونی طریقے سے ہوگا، جن لوگوں آپ ورغلارہے ہیں ان پرقابوپانا مشکل کام نہیں۔

جنرل آصف غفور نے اس موقع پر پشتو میں بیان بھی دیا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارا دل نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی لاپتہ ہو، لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، پی ٹی ایم پر میڈیا پر بحث نہیں کرائیں گے، ٹی وی چینلز ایک دن مجھے دے دیں، میں موضوع دوں گا اس پر ماہرین کو بلائیں، عدالتی اور پولیس اصلاحات پر بات کریں، 7 سے 12 تک ٹاک شور میں صرف مسائل پر بات ہوتی ہے، آپ حل بتائیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب بات ملکی دفاع اور سلامتی کی ہو تو پاکستان ہر قسم کی صلاحیت استعمال کرے گا، ہمارا حوصلہ نہ آزمائیں، وقت آیا تو پاک فوج عوام کی مدد سے بھرپور دفاع کرے گی اور تاریخ دہرائے گی، یہ 1971 نہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات ہیں، اگر موجودہ پاکستانی میڈیا 1971 میں ہوتا تو بھارت کی سازشیں بے نقاب کرتا اور آج مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات