�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2019ء) وزیر بلدیا ت
سندھ سعید غنی نے کہاہے کہ
شہید محترمہ
بینظیر بھٹو کی مقبولیت دیکھتے ہوئے آمر ضیاء الحق نے اس شہر اور صوبے کو لسانیت اور فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا اور
ایم کیو ایم بھی اسی کا ایک پودہ ہے۔کے ایم سی کو آفر کرتا ہوں کہ وہ
سندھ حکومت سے ماہانہ دو ارب روپے اس مد میں لے اور رونیو کلیکشن
سندھ حکومت کے حوالے کردے ہم اس کو 5 سے 10 ارب کرکے انہیں بتا دیں گے۔
اپوزیشن کے تمام ارکان کو آفر کرتا ہوں کہ وہ اگر لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ ضرور اپنی تجاویز دیں ہم ضرور اس پر غور کریں گے
۔کراچی میں کام نہ کرانے کے الزامات لگانے والوں کو اگر
کراچی میں گذشتہ اور موجودہ ادوار میں بننے والی سڑکوں، انڈر پاسز، اوور ہیڈ پلز کی تعمیر کی گئی ہے، اس کی
پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
(جاری ہے)
آج اور ماضی میں
سندھ کے لوگوں کو جاہل اور بکائو کہنے والے
الیکشن میں انہی کے پاس جاکر
ووٹ مانگتے ہیں اور
سندھ کے باشعور اور غیرت مندوں نے ہمیشہ انہیں مسترد ہی کیا ہے۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کوئی ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فلسفہ ہے، اور یہ فلسفہ اسی کی سمجھ میں آتا ہے جس کو شعور ہو اور جس کو شعور ہی نہ ہو تو وہ اسے صرف نعرہ ہی سمجھتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے
ایم کیو ایم کو وفاقی اور صوبائی حکومت میں شامل کیا تو وہ ہماری ضرورت نہیں تھی اور یہ
ایم کیو ایم والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیوں وہ اس اسمبلیوں میں ہمارے حلیف بنے تھے
۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب ایمنسٹی اسکیم لانے کی بات کی گئی تو اس کی مخالفت کی گئی اور یہ نہیں لائی گئی، اس کے بعد نواز دور میں جب یہ اسکیم لائی گئی تو خود
عمران خان اور ان کی جماعت نے کہا کہ جو ایمنیسٹی اسکیم لیتے ہیں وہ
چور اور ڈاکوں ہیں اور ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے، اور اب خود
عمران خان کہتے ہیں کہ ہم ایمنسٹی اسکیم لارہے ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ نااہل اور نالائق کون ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز سندھ
اسمبلی میںجاری پوسٹ و پری
بجٹ پر جاری بحث پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ میرے پاس پبلک ہیلتھ، لوکل گورنمنٹ، کچی آبادی ہیں۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پبلک ہیلتھ میں اشیوز اٹھائیں گئے ہیں۔ ان دونوں اداروں میں واٹر کمیشن کے باعث ادائیگییوں میں تاخیر ہوئی۔ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ میں ریلیز 57.2 فیصد اگلے دو ماہ میں 95 فیصد تک ہوجائیں گی۔
رولر ڈویلپمنٹ میں 37 فیصد ریلیز ہوئی ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں 43 فیصد ہیں۔
کراچی میں کئی میگا اسکیموں پر تیزی سے جاری ہیں اور یہ سال کے اختتام تک مکمل کرلی جائیں گی اور یہ ریلیز 80 سے 90 فیصد تک ہوجائیں گی۔ آر او پلانٹس کے حوالے سے فیز 3 میں 750 یونیٹس ہے اور یہ 5.30 بلین کی ہے۔ اس کی تکمیل جون 2019 تک مکمل ہوجائے گی جبکہ اس کی تکمیل کی تاریخ 2021 کی تھی۔
اس میں سے 199 آر او پلانٹس پر کام جاری ہے جو جون 2019 تک مکمل کرلئے کائیں گے۔ اس پر واٹر کمیشن اور
سپریم کورٹ کے فیصلے مثبت آئیں ہیں۔
کراچی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کام نہیں کرایا گیا وہ تاثر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ
کراچی میں کام نہ کرانے کے الزامات لگانے والوں کو اگر
کراچی میں گذشتہ اور موجودہ ادوار میں بننے والی سڑکوں، انڈر پاسز، اوور ہیڈ پلز کی تعمیر کی گئی ہے، اس کی
پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ کورنگی، طارق روڈ، شارع فیصل، یونیورسٹی روڈ، صدر سے گارڈن روڈ، ملیر میں دو پل، منزل پمپ فلائی اوور، سن سیٹ فلائی اوور، ٹیپو سلطان روڈ،
شہید ملت پر زیر تعمیر دو انڈر پاس، کورنگی 12000
سڑک کی تعمیر اور اب اس پر زیر تعمیر دو فلائی اوورز کی جاری تعمیر، 150 ارب روپے کی لاگت سے جاری کے فور، اسی
تھر، 65 اور 100 ملین گیلن یومیہ
پانی کے منصوبے اس کے علاوہ درجنوں دیگر منصوبے جو
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی مکمل ہوئے اور اب بھی جاری ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ لاڑکانہ میں برسی پر ڈھائی کروڑ کے اخراجات برسی پر نہیں بلکہ سیکورٹی پر خرچ کئے اور یہ قانون ہے کہ کسی بھی ایونٹ پر سیکورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں اسلام آباد میں حکومت گرانے کے لئے 878 ملین روپے خرچ ہوئے وہ بھی سیوکرٹی پر ہوئے۔ سعید غنی نے کہا کہ وفاق سے جو حصہ صوبوں کو ملتا ہے وہ پیسے وفاق کے نہیں بلکہ صوبوں سے ہی جمع کرکے وفاق لیتا ہے اور وہ اپنا خرچہ نکالتا ہے اور باقی صوبوں کو دیتا ہے۔
اس لئے وفاق سے جو ہم مانگتے ہیں وہ ہمارا حق ہے کوئی بھیک نہیں ہے اور موجودہ وفاقی حکومت سے زیادہ نااہل حکومت کوئی نہیں ہے، جس میں ٹیکس ریکوری میں 380 بلین کا 9 ماہ میں شارٹ فال ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ آج اور ماضی میں
سندھ کے لوگوں کو جاہل اور بکائو کہنے والے
الیکشن میں انہی کے پاس جاکر
ووٹ مانگتے ہیں اور
سندھ کے باشعور اور غیرت مندوں نے ہمیشہ انہیں مسترد ہی کیا ہے۔
انہوںنے کہا کہ
سندھ کے ایوان میں بیٹھ کر
سندھ کے عوام کو بکائو اور جاہل کہو گے تو پھر صرف ایوان نہیں بلکہ تمھیں باہر بھی ہیلمٹ اور بلے کی ضرورت پڑے گی۔ سعید غنی نے کہا کہ
کراچی کے عوام کو گذشتہ 25 برس سے اپنی مرضی کا
ووٹ ڈال کر اپنے امیدواروں کو کامیاب نہیں کرنے دیا گیا ہے اور جو بھی ان 25 سال میں جعلی مینڈیٹ سے
کراچی کا دعویدار بنا ہے اصل میں
کراچی کے
تباہی کے ذمہ دار بھی وہی لوگ ہیں۔
وزیر بلدیات
سندھ سعید غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کوئی ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فلسفہ ہے، اور یہ فلسفہ اسی کی سمجھ میں آتا ہے جس کو شعور ہو اور جس کو شعور ہی نہ ہو تو وہ اسے صرف نعرہ ہی سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1986 میں
شہید محترمہ
بینظیر بھٹو کی مقبولیت دیکھتے ہوئے آمر ضیاء الحق نے اس شہر اور صوبے کو لسانیت اور فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا اور
ایم کیو ایم بھی اسی کا ایک پودہ ہے۔
انہوںنے کہا کہ آج
ایم کیو ایم اس بات کو تسلیم کرے کہ ان کی پارٹی میں موجود غیر سیاسی اور دہشتگرد قوتوں نے اس شہر
کراچی کو
تباہی کی جانب دھکیلا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ
کراچی کی حالت زار کی خرابی کی ذمہ داری
پیپلز پارٹی پر عائد ڈالا جارہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ
ایم کیو ایم اپنے گنا ہ کا اعتراف کررہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ آج بھی اگر
ایم کیو ایم نفرت، تعصب، علیحدگی اور لسانیت کی سیاست کررہی ہے تو پھر یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ وہ آج بھی
الطاف حسین کی سیاست پر چل رہی ہے اور جو گھٹی ان کو
الطاف حسین نے پلائی ہے وہ آج بھی ان کے اندر موجود ہے۔
انہوںنے کہا کہ 2008 میں اگر
پیپلز پارٹی نے
ایم کیو ایم کو وفاقی اور صوبائی حکومت میں شامل کیا تو وہ ہماری ضرورت نہیں تھی اور یہ
ایم کیو ایم والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیوں وہ اس اسمبلیوں میں ہمارے حلیف بنے تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ کے ایم سی بھی ہمارا ادارہ ہے اور ہم اس کو سپورٹ کررہے ہیں اور اگر ہم یہ کہتے ہیں تو اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔
انہوںنے کہا کہ آج کے ایم سی اپنے رونیو کو ڈیڑھ ارب سے زائد نہیں کر پارہی ہے اور اس کا الزام بھی ہم پر عائد کیا جاتا ہے، میں کے ایم سی کو آفر کرتا ہوں کہ وہ
سندھ حکومت سے ماہانہ دو ارب روپے اس مد میں لے اور رونیو کلیکشن
سندھ حکومت کے حوالے کردے ہم اس کو 5 سے 10 ارب کرکے انہیں بتا دیں گے۔ انہوںنے کہا کہ واٹر بورڈ، کے ڈی اے اور ایس بی سی اے کبھی بھی شہری حکومت کے زیر انتظام نہ ماضی میں تھے اور نہ اب ہے پہلے بھی اس کے چیئرمین کا اختیار
سندھ حکومت کو تھا اور اب بھی
سندھ حکومت کو ہی ہے۔
انہوںنے کہا کہ میں اپوزیشن کے تمام ارکان کو آفر کرتا ہوں کہ وہ اگر لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ ضرور اپنی تجاویز دیں ہم ضرور اس پر غور کریں گے۔سعید غنی نے کہا کہ
سندھ کی تقسیم کرنے کی باتیں کرنے والے کان کھول کر سن لیں کہ ہم
سندھ کی تقسیم نہیں ہونے دیں گے اور
پنجاب میں صوبے بننے کی دلیل دینے والے اس
قرارداد کو بھی دیکھ لیں جو
پنجاب کی
اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔
انہوںنے کہا کہ نیب کے دھڑے معیار پر اگر ہم بات کرتے ہیں تو اس کے دلائل بھی ہیں۔ کے پی کے میں احتساب کمیشن کے نام پر 58 کروڑ روپے کے اخراجات ہوں، بی آر ٹی میں خود
وزیر اعلیٰ کے پی کے کی بنائی گئی انسپیکشن ٹیم نے 7 ارب روپے کی
کرپشن کا اعتراف کیا ہو، یا پھر بلین ٹری کا معاملہ ہو، ایک وفاقی وزیر کے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا
کرپشن کا معاملہ ہو نیب یا کسی اور کی جانب سے کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا اور اگر
پیپلز پارٹی یا اب نون لیگ کے کسی ممبر پر صرف الزام بھی ہو تو اس کو
جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ ہمیں نااہل کہنے والے اس ملک کی گذشتہ 8 ماہ کی نااہل ترین معاشی پالیسی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، جہاں ایک عام شخص بھی اس پالیسی بھی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔انہوںنے کہا کہ اس ملک کے ایک واحد نااہل ترین شخص کو اکنامک ٹیم کا سربراہ بنایا گیا ہے اور یہ نااہل ترین شخص اس ملک کی معاشی پالیسی کو بنا کر خود
تحریک انصاف کی جانب سے
پیپلز پارٹی کے دور کے کرپٹ وفاقی وزیر جو کہ اب ان کے وزیر ہیں ان کے ذریعے رائج کریں گے تو یہ کون سی نااہلی کی فہرست میں شامل کریں گے ۔
انہوںنے کہا کہ
سعودی عرب، یو اے ای اور چائنا سے اربوں
ڈالر لائے گئے وہ کہاں ہیں اور وہ
ڈالر آتے گئے اور فارغ ہوتے گئے تو یہ کس کی نااہلی ہے۔ وزیر بلدیات
سندھ نے کہا کہ
پیپلز پارٹی کے دور میں جب ایمنسٹی اسکیم لانے کی بات کی گئی تو اس کی مخالفت کی گئی اور یہ نہیں لائی گئی، اس کے بعد نواز دور میں جب یہ اسکیم لائی گئی تو خود
عمران خان اور ان کی جماعت نے کہا کہ جو ایمنیسٹی اسکیم لیتے ہیں وہ
چور اور ڈاکوں ہیں اور ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے، اور اب خود
عمران خان کہتے ہیں کہ ہم ایمنسٹی اسکیم لارہے ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ نااہل اور نالائق کون ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ آج میں اس بات کو کہنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کررہا ہوں کہ
کراچی میں ماضی میں بھی یہاں کے عوام پر لاکر نمائندوں کو بٹھایا گیا اور اب اس
الیکشن میں بھی عوامی ووٹوں کے برخلاف یہاں کے عوام پر آسمانی مخلوق نے لاکر بٹھا دیا ہے۔