ٴْپاکستان تاریخ کے بد ترین سیاسی ، معاشی اور سماجی بحران سے گزررہا ہے،رضا ربانی،رشید رضوی

تبدیلی کے نام پر مسلط کردہ حکومت نے عوام الناس سے جینے کا بنیادی حق چھین لیا ہے غ*ریاست عام شہری سے ملک کے دستور میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی پامالی مسلسل گزشتہ ستر سالوں سے کرکے تمام طبقوں کا بد ترین استحصال کر رہی ہے،مزدور ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام یوم مئی کیعظیم الشان جلسے سے خطاب

جمعرات 2 مئی 2019 00:06

ٴْپاکستان تاریخ کے بد ترین سیاسی ، معاشی اور سماجی بحران سے گزررہا ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2019ء) سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور سپریم کورٹ بار کے سابق صد ر رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین سیاسی ، معاشی اور سماجی بحران سے گزررہا ہے۔ حکمرانوں کی نا عاقبت اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے کو بے یقینی کے اندھیروں نے چار وں طرف گھیر لیا ہے ، تبدیلی کے نام پر مسلط کردہ حکومت نے عوام الناس سے جینے کا بنیادی حق چھین لیا ہے۔

ریاست عام شہری سے ملک کے دستور میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی پامالی مسلسل گزشتہ ستر سالوں سے کرکے تمام طبقوں کا بد ترین استحصال کر رہی ہے انہیں امن و امان اور زندگی کا تحفظ فراہم کرنے کے بنیادی فرائض سے دست بردار ہو چکی ہے ملک میں قائم لوٹ کھسوٹ پر مبنی معاشی نظام اور اسکا سیاسی ڈھانچہ محنت کشوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کر رہا ہے ۔

(جاری ہے)

حکمرانوں نے اپنے طبقاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لئے عوام کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کے شکنجے میں بُری طرح جکڑ دیا ہے ۔ پیٹرول کی مصنوعات، بجلی ، دوائیوںاور سوئی گیس کے نرخوں میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا ہے کہ ایک عام شخص کی پہنچ سے تمام ضروریات زندگی کی اشیاء بھی دور ہو گئیں ہیں ان اقدامات سے یقینا موجودہ حکومت کے دعوؤں کی مکمل قلعی کھل گئی ہے۔

مزدوروں کے عالمی دن پر دُنیا بھر میں مزدور ریلیاں اور جلسے منعقد کرکے شکاگو کے مزدورو ں کو جانوں کانذرانہ پیش کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور 1886 ء میں کی جانے والی جدوجہد کی روشنی میں مزدوروں کو بنیادی حقوق دلانے کا عزم کرتے ہیں۔ کراچی پریس کلب میں صحافی مزدور ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام یوم مئی کا عظیم الشان جلسہ مزدوروں، صحافیوں، خواتین اور سول سو سائیٹی کی تنظیموں کی طرف سے منعقد کیا گیا جس میں مہمان خصوصی سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور سپریم کورٹ بار کے سابق صد ر رشید اے رضوی نے صدارت کی ۔

اس موقع پر جلسے کا اعلامیہ جاری کیا گیا کہ محنت کشوں کے بنیادی حقوق کو ریاستی اداروں نے مکمل طور پر سلب کر رکھا ہے ، سونے پر سہاگہ روپے کی قدر میں آئی ایم ایف کی اشاروں پر تقریباً 35 فیصد کمی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک کے قرضوں میں پوری قوم پر بوجھ ڈالہ گیا ہے بلکہ ایک عام شہری اور محنت کش کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے۔

آج بھی صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں محنت کش صنعتی اداروں سے جبری برطرفیوں کے عزاب سے گزر رہے ہیں، روزگار کے مواقع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، غیر قانونی ٹھیکیداری نظام کو مالیاتی و صنعتی اداروں پر مکمل طور پر مسلط کردیا گیا ہے، ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونین اور سی بی اے بنانے کے حق کو گناہ کبیرہ قرار دے دیا گیا ہے المیہ یہ ہے کہ اس غیر منصفانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو دہشت گرد اور ملک دُشمن قرار دیا جا رہا ہے، شکاگو کے مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دُنیا بھر کے مزدوروں کیلئے اوقات کار پر سرمایہ دار طبقے کو مجبور کیااس کی روشنی میں تمام ریاستوں نے لیبر قوانین مرتب کرکے محنت کشوں کوٹریڈ یونین کا حق دیا لیکن گزشتہ بیس سالوں سے سرمایہ دار طبقے نے ریاستی اداروں میں اپنے پنجے گارڑ لئے ہیں بلکہ سیاسی اور جمہوری اداروں پر قابض ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی سطح پر مکمل طور پر آواز ختم ہو گئی ہے جس کی واضح مثال بینکنگ انڈسٹری میں ٹریڈ یونین کے کردار کو ختم کرنے کیلئے بینکنگ کمپنی آرڈیننس کی سیکشن میں 27-B کو شامل کرکے نہ صرف ملک دستور کی خلاف وری کی گئی بلکہ بین القوامی لیبر قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے آج بینکنگ انڈسٹری میں جس طرح شکاگو کے مزدوروں نے ظالمانہ نظام کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ایک تاریخ رقم کی تھی اور سرمایہ دار طبقے کو مجبور کیا تھا کہ محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے وہ ہی حالات اس وقت ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ہیں بالخصوص بینکنگ انڈسٹری میں ٹریڈ یونین کے کردار کو ختم کرکے بینکنگ انڈسٹری کو بیگار کیمپ بنایا دیا گیا ہے اسی طرح کے حالات میڈیا انڈسٹری کے ہیں آئے دن جبری برطرفیاں محنت کشوں کی جارہی ہیں ٹریڈ یونین کے وجود کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے، شوگر انڈسٹری میں ٹریڈ یونین کے بارے میں سوچنا بھی جُرم تصور کیا جا تا ہے کم سے کم ویجز کی ادائیگی جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رف سے اعلان کردہ ہے اس سے بھی غیر ہنر مند تو ایک طرف بلکہ ہنر مند افراد کو بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

سرمایہ داروں اور ملک کی بیوروکریسی نے اداروں میں کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں مستقل بھرتیوں کے بجائے کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے غیر قانونی بھرتیاں کرکے محنت کشوں کو نہ صرف ملک کے دستور میں فراہم کردہ بنیادی حقوق سے محروم کیا ہے بلکہ ٹریڈ یونین اور سی بی اے کی سرگرمیوں سے بھی محروم کر دیا ہے اس کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے ادارے آج تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ترجمان چین کی بانسری بجا رہے ہیں جبکہ ملک بھر کے تمام ادارے 1886 ء سے بھی بد تر حالات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے طویل آمرانہ اور اس کے سائے میں بننے والی حکومتوں میں سب سے زیادہ میڈیا کو نشانہ بنایا گیا ہے ، ڈنڈے اور چمک کے ذریعے اس آزاد صحافت کو نشانہ بنایا گیا جس کے لیئے صحافتی تنظیموں نے آزادی صحافت کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں بڑی قربانیوں کے بعد اس ملک کے غریب عوام کے لیئے حاصل کی تھی موجودہ حکومت نے تو میڈیا کا راستہ روکنے کے معاشی ناکہ بندی کی ہے بظاہر یہ حکومت اور مالکا ن کی لڑائی دکھائی دے رہی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ براہ راست میڈیا پر وار ہے اب صورتحال ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور سنگین ہے ہمیں اس آزادی صحافت کا پرچم بلند رکھنا ہے جو تمام صحافی ، مزدور ، سیاسی اور سول سو سائیٹی نے غریب عوام اور پسے ہوئے طبقات کے لیئے حاصل کی ہے۔

حکومت آئین کے آرٹیکل19 اور اٹھارویں ترمیم کی شق19 اے کے تحت تفویض کردہ حقوق پر بھی عمل کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ میڈیا ایک آزاد ، خود مختار اور شفاف ماحول میں کام کرسکے جبکہ پیمرا کو وزارت اطلاعات و نشریات کے کنٹرول سے باہر لاکر ایک خو د مختار ادارہ بنایا جائے ۔میڈیا ہاؤسز سے جبر ی نکالے گئے صحافیوں کو باعزت طور پر بحال کیا جائے، میڈیا ہاؤسز کی تمام ادائیگی فوری طور پر کی جائیں، میڈیا انڈسٹری کے تمام ملازمین کو تنخواہیں وقت پر ادا کی جائیں، شہید ہونے والے ورکرز کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیئے صوبائی اور وفاقی سطح پر خصوصی ٹریبیونلز قائم کئے جائیں۔

میڈیاہاؤسزاور پریس کلبوں کی مؤثر سیکورٹی کے لیئے پلان بنایا جائے اور ملک بھر کی تمام پریس کلبوں کے باہر ہونے والے مظاہروں پر لاٹھی چارج کرنے کی بجائے انہیں احتجاج کا حق دیا جائے اور اس کیلئے ایک وزارت بنائی جائے تاکہ مہذب معاشروں کی طرح پریس کلب پر کئے گئے احتجاج اور پریس کانفرنس کا فوری نوٹس حکومتیں لے کر انصاف کی رٹ کو قائم کریں ۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک کے دستور کے آرٹیکل17 ، ملکی اور بین القوامی لیبر قوانین کی روشنی میں ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونینز کا حق مزدوروں کا فراہم کیا جائے، صحافیوں اور مزدوروں کی جبری برطرفیوں کے بجائے اداروں میں محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ فراہم کیا جائے، بینکنگ انڈسٹری میں 27-B کی سیکشن بینکنگ کمپنی آرڈیننس میں شامل کرکے ملک کے دستور اور ملکی اور بین القوامی لیبر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی جس کے خلاف گزشتہ بائیس سالوں سے بینکنگ انڈسٹری کے محنت کش جدوجہد کر رہے تھے بالخصوص میاں رضا ربانی نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اس کو ختم کرنے کیلئے بہت سی کاوشیں کیں لیکن اکثریت ان کا ساتھ نہیں دیتی تھی تاہم چند روز قبل پھر ان کی طرف سے پش کردہ بل کہ27-B کو بینکنگ کمپنیز آرڈیننس سے ختم کرکے بینکنگ انڈسٹری کے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق فراہم کیا جائے جیسے سینیٹ نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا ہے اب ہم امید کرتے ہیں کہ جد قومی اسمبلی میں پاس کرکے اسے ختم کرکے مزدوروں کو مساوی ٹریڈ یونین کا حق دیا جائے گا، ملک کے قیمتی اداروں کو من پسند لوگوں کو اونے پونے فروخت کرنے کے عمل بند کیا جائے اداروں کی نج کاری بند کی جائے، ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے غیر قانونی بھرتیوں کے بجائے مستقل بھرتیاں ان کیڈرز میں کی جائیں، تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کی کٹوتی زیادہ سے زیادہ پندر فیصد رکھی جائے ، سیل ٹیکس اور ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی عوام سے حاصل کرنے والی رقم عوام کو واپس کی جائے، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں مزدوروں کی کم سے کم پانچ فیصد نشستیں مختص کی جائیں،اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق سے وزارت محنت کو ختم کیا گیا جس سے انڈسٹری وائز اداروں کے مزدور نہتے ہوئے گئے ہیں اس وزارت کو قائم کیا جائے، وفاقی اور صوبائی سطح پر لیبر اسٹینڈنگ کمیٹیاں قائم کرکے اداروں کا احتساب کیا جائے، کم سے کم ویجزغیر ہنر مند مزدوروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اعلان کردہ ادا کی جائے،صوبوں کی سطح پر شوگر ملز، گارمینٹس انڈسٹری، ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دیگر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میںانسپیکشن کمیٹیوں کو مؤثر بنانے کیلئے مزدوروں کے نمائندوں کو شامل کیا جائے،غیرمنظم شعبہ خصوصاً ہاریوں اورن گھر مزدوروں کے حقوق کو فراہم کئے جائیں،مزدور عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک، اجرتوں میں تفاوت اور کام کی جگہوں پر ہراسگی کے بڑھتے رجحان کو ختم کیا جائے اور مہنگائی کے تناسب کا تعین کرنے والے موجودہ نظام کو تبدیل کرکے انصاف پر مبنی مہنگائی نظام مرتب کیا جائے اور اس کے مطابق غیر ہند مند مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، ملکی سطح پر تعلیم ادارے بشمول یونیورسٹیاں ضلعوں کی سطح پر قائم کی جائیں تاکہ کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں اور صحت کے ادارے ملکی سطح پر ضلعوں کی سطح پر قائم کئے جائیں جہاں تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے افراد اپنا علاج کروا سکیں۔

#