قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز

امریکی فوج نے طالبان کے زیر اثر علاقوں کی نگرانی کا کام روک دیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 2 مئی 2019 11:42

قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز
کابل/دوحا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 مئی۔2019ء) افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوشش کے لیے قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوگیا جس کے بعد امریکی فوج نے افغان حکومت اور طالبان کے زیر اثر علاقوں کی نگرانی کا کام روک دیا ہے. غیرملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ اعلان امریکا کے ایسے نگراں ادارے کی جانب سے سامنے آیا ہے جو جنگ زدہ ملک میں سیکورٹی صورتحال کی نگرانی کرتا ہے.

(جاری ہے)

طالبان کی جانب سے اپریل کے آغاز میں موسم بہار کے حملوں کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس اعلان سے قبل ہی چند ہفتوں کے دوران پورے افغانستان میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں متعدد شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے.

خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیر نو (ایس آئی جی اے آر) نے ایک 30 اپریل کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ امریکی فوج نے نگراں ادارے کو بتایا ہے کہ وہ اب افغانستان میں حکومتی فورسز اور طالبان کے زیر اثر علاقوں میں ٹریکنگ نہیں کرے گی. افغانستان میں امریکی فورسز کے ترجمان نے بتایا کہ نیٹو سپورٹ مشن (آر ایس) نے یہاں افغان طالبان اور حکومت کے زیر اثر علاقوں کی نگرانی کرنا چھوڑ دی جبکہ انٹیلی جنس کمیونٹی اپنے طور پر یہ کام کر رہی ہے.

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کی تشخص کا عمل جاری رہے گا یا پھر یہ بھی رک جائے گا؟ایس آئی جی اے آر کے سربراہ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندہ گان کے لیے اندازہ لگانے کے لیے بھی معلومات نا مکمل ہے کہ آیا ان کی افغانستان میں سرمایہ کاری کامیاب ہوئی ہے یا نہیں؟خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کا ملک کے 53.8 فیصد علاقے پر مکمل کنٹرول ہے جہاں تقریباً ملک کی 63.5 فیصد آبادی موجود ہے جبکہ دیگر علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں.

اس ضمن میں طالبان کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی جو عسکریت پسندوں کے وفد کی قیادت کررہے تھے. طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اہم ترین پہلوو¿ں پر تبادلہ خیال کیا گیا.

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ 2 نکاتی ایجنڈے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اور افغانستان سے کسی کو نقصان پہنچنے کی روک تھام، کو حتمی شکل دی جائے. انہوں نے کہا کہ یہ اس مسئلے کے دیگر پہلوو¿ں کے حل کی راہیں بھی ہموار کرے گا اور ہم اس سے پہلے دوسری جانب توجہ نہیں دے سکتے. دوسری جانب کابل میں موجود امریکی سفارت خانے سے صرف اس بات کی تصدیق ہوسکی کہ مذاکرات ہورہے ہیں‘ ایک مغربی سفارتکار کا کہنا ہے کہ اس مذاکراتی دور میں زلمے خلیل زاد اور ان کا وفد سب سے پہلے لڑائی روکنے کے لیے جنگ بندی کے اعلامیے پر توجہ دیں گے.

امریکی سفارت کار کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ متوقع طور پر تنازع کا سیاسی حل نکالنے کے لیے طالبان کی بین الافغان مذاکرات میں شمولیت پر اصرار کریں گے لیکن طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حالیہ مذاکرات میں افغان حکومتی نمائندوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں. دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے غیر معمولی مشاورتی اجلاس جسے ”لویہ جرگہ“ منعقد کیا تا کہ کابل کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے.

اشرف غنی کو یقین ہے کہ لویہ جرگے کے انعقاد سے امن مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندوں کی شمولیت کو تقویت اور جواز ملے گا‘اس جرگے میں افغانستان کے 34 صوبوں سے 32 سو قبائلی عمائدین سیاستدانوں، مذہبی اور برادری کے راہنماﺅں کو عودت دی گئی تھے مگر افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ ‘سابق جہادی راہنماءگلبدین حکمت یار‘سابق صدر حامد کرزئی سمیت متعدد اہم افغان راہنماﺅں نے اس جرگے کا بائیکاٹ کیا ہے جس سے اس جرگے کی اہمیت نہ ہونے کے برابررہ گئی. حامد کرزئی سمیت حزب اختلاف راہنماﺅں کا الزام ہے کہ اشرف غنی اس پلیٹ فارم کو آئندہ آنے والے انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں.