مسعود اظہر پر عالمی پابندی کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے،پاکستانی سفارتکار

پاکستان نے دوحہ مذاکرات کے لیے تعاون کیاورنہ اس میں اہم پیش رفت ہونا نا ممکن تھا،اسدمجید خان کی گفتگو

ہفتہ 4 مئی 2019 16:10

مسعود اظہر پر عالمی پابندی کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے،پاکستانی ..
ہیوسٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2019ء) امریکا میں موجود پاکستانی سفارتکار اسد مجید خان نے کہاہے کہ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر لگائی گئی پابندی کے کوئی منفی اثرات نہیں ہوں گے بلکہ اس سے دہشت گردی خلاف لڑنے کے پاکستانی عزم کو تقویت ملی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکا میں موجود پاکستانی سفارتکار اسد مجید خان نے یہ بات ہیوسٹن کے غیر معمولی دورے کے دوران کہی اور انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ امریکا نے اس اقدام کے بعد اپنے پہلے ردِ عمل میں بھی پاکستانی عزم کو سراہا تھا۔

ہیوسٹن میں ورلڈ افیئرز کونسل کے اجلاس میں خطاب کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سفارتکار کا کہنا تھا کہ میرے سامنے ایسی کوئی وجہ نہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات پر اس اقدام کا منفی اثر پڑے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہمارے عزم کا اعادہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کونسل سے اپنے خطاب میں انہوں نے حالیہ صورتحال کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی بات کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ نہایت اہم اور نتیجہ خیز تعلقات ہیں اور ہم مضبوط شراکت داری کے خواہاں ہیں۔

اس کے ساتھ انہوں نے دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذکرات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بھی بات کی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مذاکرات کے لیے ایک بہتر طالبان وفد بنانے میں تعاون کیا جس کے بغیر اس میں اہم پیش رفت ہونا نا ممکن تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں پاکستان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا وہیں خطے کے دیگر عناصر نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کے لیے امریکی کوششوں کی بھی حمایت کی جو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے چاہیے۔اس کے ساتھ انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ افغان مفاہمتی عمل سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے حوالے سے انہوں نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین فروری میں ہونے والی جھڑپ کا بھی تذکرہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت اندرونی سیاست میں فوائد حاصل کرنے کے لیے اختلافات کو ہوا دینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔