Live Updates

قومی بیانیہ کون طے کرے گا یہ ایک معمہ ہے،محمد زبیر

حکومت نے میڈیا کے لیے مشکلات پیدا کیں حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی میڈیا مشکلات شکار رہا،سابق گورنر سندھ سال 2002 سے آج تک پاکستانی صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے، ان 15 سالوں میں 72 صحافی شہید ہوئے،مبشرمیر صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے،کراچی ایڈیٹرز کلب کے سیمینار سے ارمان شاہ ،بریگیڈیئر(ر)طارق،پروفیسر انعام ،مختار بٹ اور دیگرکا خطاب

ہفتہ 4 مئی 2019 17:27

قومی بیانیہ کون طے کرے گا یہ ایک معمہ ہے،محمد زبیر
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2019ء) سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ قومی بیانیہ کون طے کرے گا یہ ایک معمہ ہے ۔ حکومت نے میڈیا کے لیے مشکلات پیدا کیں حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی میڈیا مشکلات شکار رہا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بہت شاندار تھی اس کے بعد میڈیا پر پی ٹی ایم پر بات کرنے کا راستہ کھل گیا ورنہ میڈیااس حوالے سے خاموش تھا ۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے میڈیا کو ریلیف دیا جب ایمرجنسی کو ہٹایا گیا ۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوںنے میڈیا کی آزادی کے لیے کام کیا ۔ان کے دور حکومت میں جس آزادی کے ساتھ ٹی وی ٹاک ہوئی اس کے بعد نہیں ہوسکی ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں کراچی ایڈیٹرز کلب کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار اور جرنلسٹس ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات اور سینئر صحافیوں کے علاوہ ایران کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل بہرام کیان نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔ ۔تقریب سے سابق گورنر سندھ کے علاوہ گلگت بلتستان کونسل کے ممبر ارمان شاہ ،صدر کراچی ایڈیٹرز کلب مبشر میر ،دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) طارق ،معروف اینکر مختار احمد بٹ ،انٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیئرمین پروفیسر انعام ،معروف تجزیہ نگار آغا مسعود حسین ،پروڈیوسر کرنٹ افیئرز اسداللہ بھٹی نے بھی خطاب کیا ۔

محمد زبیر نے کہا کہ پی ٹی وی ایسا تھا کہ لالو کھیت میں فائرنگ ہوتی تھی، لیکن قومی نیوز چینل امن کی بانسری بجارہا ہوتا تھا۔ صحافیوں نے ازادی اظہار کی خاطر قید کاٹی اور کوڑے کھائے، 1980 میں جونیجو نے آزادی صحافت میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس کے علاوہ جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت میں صحافت اپنے عروج پر تھی اورہرقسم کی پابندیوں سے میڈیا آزاد تھا ، اس کے بعد 2013 میں دوبارہ میڈیا پر پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں۔

دراصل 70 سال میں سے صرف 23 سال جمہوریت رہی باقی تمام مدت مارشل لاء رہا، اگر ڈیل کرنا اتنا آسان ہوتا تو تمام مسائل ہوجاتے۔ انہوںنے کہاکہ ستمبر2013 کو کراچی آپریشن سوچ سمجھ کر کیا گیا جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ طلعت حسین جو ایک اچھا جرنلسٹ ہے، لیکن پابندی کی وجہ سے وہ میڈیا پر نہیں آسکتا ہے۔ اس نے ملک کے خلاف ایسا کیا کہا ہے کہ اس کو باہر کردیا گیا ہے۔

حکومت کو تنقید بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، وہ بالکل آئینی حق ہے تنقید کرنے والے کا۔ انہوںنے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی ایم کا موضوع تمام میڈیا پر زیربحث رہا۔ اس سے قبل PTM کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جارہی تھی ۔ پی ٹی ایم کی فنڈنگ کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کی رائے بالکل درست ہے، اب سے ایک ہفتہ قبل کوئی بھی اس موصوع پر بات نہیں کرسکتا تھا ، حکومت وقت کی مقبولیت کم ہونے لگتی ہے تو اپوزیشن کو ملانا شروع کردیا جاتا ہے۔

کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم آزادی صحافت کے موقع پر آزادی اظہار کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لیے کچھ دیر خاموش رہیں گے۔ سال 2002 سے آج تک پاکستانی صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے، ان 15 سالوں میں 72 صحافی شہید ہوئے، گذشتہ سال 6 صحافیوں نے جام شہادت نوش کیا، میں قبائلی اور حساس علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میڈیا بربادی کا موجب نہیں بلکہ سچائی کا متلاشی ہے حکومت یا کسی اور قومی ادارے کی باقاعدگیوں کو سامنے لایا جاتا ہے کیونکہ یہ میرے ملک کے ادارے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ 1971 میں میڈیا اتنا آزاد ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے، آپ کو اس بات کا علم ہے کہ ضیاء الدین ایجوکیشن بورڈ بنادیا گیا ہے اور اس کے بل کو اسمبلی سے خاموشی سے پاس بھی کروالیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل آغا خان بورڈ بھی بنایا گیا لیکن عوام کو بتانے کی ہمت نہیں کی گئی اور اب سندھ ایجوکیشن اتھارٹی کا بل پیش ہونے والا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہے۔

کراچی آرٹس کونسل میں دو سال قبل زبردستی بل پاس کیاگیا کہ گورننگ باڈی آرٹس کونسل کی زمین فروخت کرسکتی ہے۔ آرٹس کونسل میں اجلاس عام کے دوران جس میں شہر کے معروف اور بااثر 522 لوگ موجود تھے ان کے سا منے ایک ممبر کے ساتھ زبدسلوکی کی گئی لیکن کوئی بھی نہیں بولا، صرف 8 لوگوں نے آواز اٹھائی۔ میڈیا کو متحد کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، ہیلتھ انشورنس کے لیے کچھ نہیں ہوا جبکہ ارکان اسمبلی کے لیے 24 ارب روپے کا بل فوری طور پر پاس کرلیاگیا ، قومی اعزازات کی بھی بندر بانٹ کی گئی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

گلگت بلتستان کونسل کے رکن ارمان شاہ نے کہا کہ میں کراچی ایڈیٹرز کلب کے عہدیداران کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کامیابی کے ساتھ دو سال مکمل کرچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔میڈیا منفی سرگرمیوں سے گریز کرے ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان صوبہ کو آئینی حقوق دینے میں تاخیر کی جارہی ہے ۔

وفاقی حکومت نے ابھی تک اس کے بارے میں کوئی پالیسی واضح نہیں کی ۔وزیراعظم عمران خان کو گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں سے ملاقات کرنی چاہیے ۔انہوںنے کہا کہ گلگت سی پیک کا گیٹ وے ہے ۔حکومت بلوچستان کی بات کرتی ہے لیکن شمالی علاقہ جات کو نظر انداز کر رکھا ہے ۔گلگت سے گوادر تک مکمل امن ہی سی پیک کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔انہوںنے کہا کہ گلگت بلتستان صوبہ پاکستان کو ٹورزم انڈسٹری سے زرمبادلہ کماکر دے سکتا ہے ۔

کرنل مختار بٹ نے کہا کہ میڈیا آج جس قدر آزاد ہے، ماضی میں کبھی نہ تھا، ہم اگر اپنے سربراہوں کی قدر نہیں کریں گے تو باہر والے ان کی قدر کیسے کریں گے، پوری دنیا میں سربراہوں کی قدر کی جاتی ہے، مجھے پاکستانی ہونے پر انتہائی فخر ہے، کیونکہ میں نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں یہی کہوں گا ملک کی قدر کریں۔ انٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیئرمین پروفیسر انعام نے کہا کہ آج کل میڈیاکا دور ہے ، صحافیوں کو بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے مشکلات ضرور پیش آتی ہیں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ وہ ایمانداری کا ساتھ نہ چھوڑیں اور قلم چلاتے وقت یہ سوچیں کہ وہ کیا لکھ رہے ہیںاور خبر کی صداقت کو جانیں اور ایسی خبروں سے گریز کریں جو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہوں۔

بریگیڈیئر (ر) طارق نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں، میڈیا کو چاہیے کہ ہر چیز کو شائع کرتے وقت احتیاط کرے کہ اس میں سب سے پہلے ملکی مفاد کو دیکھیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ لندن میں اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے جسے شائع نہیں ہونا چاہیے تو صبح اخبارات میں اس کا ذکر تک نہیں ہوتا۔پی ٹی وی کے پروڈیوسر اسد الله بھٹی نے کہا کہ ہمارے ملک کا مفاد جس چیز میں ہے، ہمیں اسے شائع کرنا چاہیے بے معنی خبروں سے گریز کیا جائے ۔

آغا مسعود نے کہا کہ سابق گورنر محمد زبیر انسان دوست شخصیت کے مالک ہیں اور ان کو جس وقت جس پروگرام میں دعوت دی جائے وہ بھرپور انداز اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔بعدازاں کلب کے سینئر نائب صدر مختار عاقل نے پروگرام کے اختتام سے قبل مہمانوں کی آمدکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل جو پودا لگایا تھا وہ آہستہ آہستہ تناور درخت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ صحافی برادری ہمیشہ اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرتی آرہی ہے، انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں انگریز کی سازشوں کو اجاگر کیا تھا، کراچی ایڈیٹر کلب بھی وہ پرچم صحافت ذمہ داری کے ساتھ اٹھائے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

بعدازاں تقریب کے مہمان خصوصی سابق گورنر محمد زبیر اور کلب کے صدر مبشر میر نے مختار عاقل اور کرنل مختار بٹ کے ہمراہ آغا مسعود، نجم الدین شیخ، بریگیڈیئر (ر) طارق، ارمان شاہ، سعید احمد، مس رضوانہ، اسد الله بھٹی، بیچ لگژری ہوٹل کے جی ایم عظیم قریشی، رانی آپا، رانا طاہر،مسعود زیدی ، ابرار بختیار، نعیم الدین ، فضہ شکیل ، نگین رضوی ، پروفیسر انعام ، سید ابن حسن، الیاس کمبوہ، سکندر علی (شاعر)، اسپورٹس سے تعلق رکھنے والے قمر، حلیم شرر، حمید بھٹو، جاوید جعفری،شرمین ، حسینہ جتوئی ، ڈاکٹر بلقیس ، علمدار حیدر، ضیغم ضیاء ودیگر کو ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ پیش کیے گئے۔

سینئر صحافی نادر شاہ عادل کا ایوارڈ مختار عاقل نے وصول کیا۔ اس موقع پر عظیم قریشی کی جانب سے مہمان خصوصی کو گلدستہ پیش کیا گیا۔جبکہ حمید بھٹو کی جانب سے انہیں اجرک کا تحفہ دیا گیا۔ آخر میں کراچی ایڈیٹرز کلب کی دوسری سالگرہ کا کیک کاٹا گیا ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات