ڈائو یونیورسٹی میں دمہ کے عالمی دن پر عوامی آگاہی سیمینار کا انعقاد

منگل 7 مئی 2019 15:56

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 مئی2019ء) اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم احمد نے کہا ہے کہ دنیاکی300 ملین آبادی دمے کے مرض میں مبتلا ہے، پاکستان میں20 سے 30 فیصد بچے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ بڑوں میں یہ بیماری نسبتاًً کم ہے، پاکستان میں 30 افراد میں سے تین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں، دمہ کے مرض میں مریض کو سانس کی نالی میں تنگی پیدا ہوجانے کے باعث سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

دمہ کا مرض عام طور پر مورثی ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی، پروں والے جانور اور پولنز والے پودے میں اس مرض کے بڑھنے کا سبب ہیں۔ منگل کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یہ بات انہوں نے ڈائو یونیورسٹی کے اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز میں دمہ کے عالمی دن پر منعقدہ عوامی آگاہی سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر اسسٹنٹ پروفیسر سیف اللہ بیگ، ڈاکٹر عائشہ، ڈاکٹر صدف نے بھی خطاب کیا، جبکہ اس موقع پر سانس کے جملہ امراض میں مبتلا عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ دمہ کا عالمی دن ہر سال مئی کے پہلے منگل کو منانے کا مقصد دنیاکے لوگوں میں اس مرض سے متعلق شعورپیدا کرنا ہے، انہوں نے مزیدکہا کہ اس مرض کے پھیلنے کی وجوہات میں دھواں، مٹی، کارپیٹ، کھانے پینے میں کسی چیز سے الرجی اور گھریلو جھگڑے کا ہونا شامل ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف اللہ بیگ نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مالوحولیاتی آلودگی کے بڑھنے کے سبب دمہ کے مرض میں بھی اضافہ ہورہا ہے، ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، انہوںنے بتایا کہ دمہ کا مرض ایک مریض سے دوسرے کو نہیں لگتا، اس لئے جو لوگ ایسے مریض کی نگہداشت کرتے ہیں، انہیں اس مرض سے خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دمہ ایک دائمی مرض ہے، اسے کنڑول کیا جاسکتاہے مگر ابھی تک اس کے خاتمے کے لئے کوئی دوا نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ دمہ کے مریض کے سانس لیتے ہوئے سینے سے آواز آنا، سانس لینے میں دشواری محسوس کرنا، ہاتھ نیلے پڑ جانا اس کی علامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوں کو پرفیومز، کوائل کے دھویں اور کاکروچ کے فضلے سے بھی دور رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ انہیلر دمہ کو کنٹرول کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے، کیونکہ اس کی مدد سے دو ا جسم کے کسی بھی دوسرے اعضاء پر اثر انداز ہوئے بغیرصرف سانس کے نالی میں ہی پہنچتی ہے، انہیلر کا ٹھیک طریقہ استعمال سے مکمل دوا سانس کی نالی میں جاکر مریض کوفوری آرام پہنچاتی ہیں، انہوںنے مزید بتایا کہ انہیلر کا استعمال نیبو لائز کرنے سے بہت بہتر ہے، انہوں نے مریضوں کی آسانی کے لئے عملی طور پر اس کو استعمال کرکے بھی بتایا۔

انہوںنے بتایا کہ جن معاشروں میں انہیلر کو استعمال کم ہو رہا ہے یا نہیں ہورہا، وہا ں اس مرض سے موت کی شرح بتدریج بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر صدف نے کہا کہ دمہ کے مریض عام طور پر صبح اور رات کے وقت اس کے اٹیک کا شکار ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی موسم میں تبدیلی بھی اس کی وجہ بنتا ہے، شدید موسم میں اس کے بڑھنے کے رحجان بھی بڑھ جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ عام طور پر دمہ کسی کھانے کے کھانے سے نہیں ہوتا، چونکہ یہ مرض پاکستان میں آلودگی کی وجہ سے بھی بڑھ رہا ہے، اس لئے ملک کے مختلف شہروں اور خاص کر دیہات میں اس سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ معلومات عام نہ ہونے کے سبب پاکستان میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :