نیشنل ایجوکیٹرزسکول کاہنہ نے غریب بچوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا

پرائیویٹ سکول مالکان نے کتابوں، وردیوں اور سٹیشنری بیچنے والے دوکانداروں سے ملی بھگت کر رکھی ہے،والدین کی گفتگو

بدھ 8 مئی 2019 14:40

خالق نگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مئی2019ء) نیشنل ایجوکیٹرزسکول کاہنہ نے غریب بچوں کے والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا،تفصیلات کے مطابق پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن (پیف) سے منظورکروانے کے باوجودبچوں کو پیف کی طرف سے ملنے والی رقم کیساتھ ساتھ پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں سے ہزارروپے فی کس سرٹیفیکیٹ کے نام پر لیا جانے لگا،نیشنل ایجوکیٹرزسکول کے پرنسپل ماسٹریاسین خودسرکاری سکول میں ٹیچرہے،اسی وجہ سے اپنے اثرورسوخ کی بنا پر پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن سے دو عدد سکول رجسٹرڈکروارکھے ہیں،لیکن غریب بچوں کے نام پر ملنے والی رقم خودہڑپ کررہا ہے،غریب بچوں کے والدین نے بتایا کہ سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار کی کمی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ اداروں میں مہنگی تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

ایک طرف یہ ادارے منہ مانگی فیسیں وصول کرتے ہیں تو دوسری طرف مختلف تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں والدین سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ایک بچے کے والدکا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں ان کے بچے صاف ستھرے اور پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کریں، اسی لیے وہ نجی سکول کی بھاری فیس اور دوسرے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔تاہم ان کے مطابق اتنی بھاری بھرکم فیسوں کے باوجود سکول میں سہولیات کا فقدان ہے جبکہ مالکان ان سے مختلف حیلے بہانوں سے پیسے بٹورتے رہتے ہیں۔

پرائیویٹ سکول مالکان تعلیمی سرگرمیوں کے بہانے ناجائز کمائی کر رہے ہیں، کبھی فیسوں میں من چاہا اضافہ کر کے اور کبھی فنڈز کی مد میں ہر ماہ اضافی رقم طلب کی جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نجی سکول پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کے لیے بھی فنڈز وصول کرتے ہیں جو والدین کی جیب پر اضافی بوجھ ہے،ان کا مزیدکہنا تھا کہ بچوں سے درجنوں کے حساب سے چارٹس، پنسل، مارکرز اور کلرز مختلف بہانوں سے منگوائے جاتے ہیں جبکہ بچوں کو صرف ایک پنسل یا مارکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ بچوں سے منگوائی گئی زائد اشیاء سکول انتظامیہ دوبارہ دوکاندار کو فروخت کر دیتی ہے اور اس طرح پرائیویٹ سکول مافیا والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے۔والدین کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ سکول مالکان نے کتابوں، وردیوں اور سٹیشنری بیچنے والے دوکانداروں سے ملی بھگت کر رکھی ہے۔ہر سکول کی کسی نہ کسی مخصوص بک سٹور سے ڈیل طے ہوتی ہے جہاں سے اس سکول سے متعلق تمام اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اور انتظامیہ ان دوکانداروں سے سال بھر فوائد حاصل کرتی ہے۔

والدین نے بتایا کہ تمام پرائیویٹ سکولز کا دوکانداروں کے ساتھ پچیس سے پینتیس فیصد کمیشن طے ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سکول مالکان اپنی کتابیں، یونیفارم اور دیگر اشیاء اسی دوکاندار کے پاس رکھواتے ہیں جو بازار میں کسی اور دوکان سے نہیں ملتیں اور بعد ازاں اس دوکاندار سے اپنا حصہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ تاہم ان نام نہاد سکولوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جار ہی۔

متعلقہ عنوان :