سپریم کورٹ میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فیسوں میں من مانے اضافے سے متعلق کیس کی سماعت

نجی اسکولز منافع ضرورکمائیں، لیکن فیس میں اضافے کی کوئی حد ہونی چاہیے، 5 فیصد سالانہ اضافے سے اسکول مالکان کو نقصان نہیں ہوتا ،سپریم کورٹ

بدھ 8 مئی 2019 17:36

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 مئی2019ء) سپریم کورٹ نے نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فیسوں میں من مانے اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی ، عدالت نے کہا ہے کہ نجی اسکولز منافع ضرورکمائیں، لیکن فیس میں اضافے کی کوئی حد ہونی چاہیے،5 فیصد سالانہ اضافے سے اسکول مالکان کو نقصان نہیں ہوتالیکن اس رکاوٹ کوختم کرنے کے نتیجے میں مالکان 15 سے 20 فیصد سالانہ اضافہ کرناشروع کردیں گے، اس کیس کافیصلہ آرٹیکل 18 کے تحت ہی کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے گا کہ عدالت آرٹیکل 18 میں کس حدتک جاسکتی ہے،اس کیس کافیصلہ تجارت، انڈسٹری اور اداروں کو بھی متاثر کرے گا، اورقومی بجٹ پربھی اس اثرات پڑیں گے۔

(جاری ہے)

بدھ کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ،اس موقع پربیکن ہائوس کے وکیل شاہد حامد نے پیش ہوکر موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلہ کے تحت 4000 سے کم فیس والے سکول فیس میں اپنی مرضی کا اضافہ کر سکتے ہیں، اس طرح 5 فیصد سالانہ سے زائد اضافے کے لئے تعلیمی سال کے اختتام سے دو ماہ قبل اتھارٹی کو آگاہ کرنا ہوتا ہے،اورزیادہ سے زیادہ اضافہ کی حد 8 فیصد سالانہ ہے، چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ کیاآپ کے خیال میں فیس اضافے میں حد لگانا غیر آئینی ہے توفاضل وکیل نے کہاکہ حدلگانا غیر آئینی نہیں بلکہ بلا جواز ہے، سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ 2012ء سے 2015ء تک فیس میں اضافے کیلئے کوئی حد لاگو نہیں تھی، اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 8 فیصد کی حد لگانا بھی بلاجواز ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہاکہ سندھ میں یہ قانون 2005ء میں لاگو تھا، تاہم پنجاب میں 2007ء کے دوران اس قانون کی ضرورت محسوس کی گئی، ایڈووکیٹ شاہد حامد نے کہا کہ آرٹیکل 18 کے تحت نجی سکولوں کی فیس سے متعلق پابندیاں تولگائی جاسکتی ہیں لیکن حد لگانا بلاجواز ہے،تمام اخراجات کے بعد سالانہ 10 سے 20 فیصد اضافے کی اجازت ہونی چاہیے، جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے ان سے کہاکہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق تمام اخراجات کے بعد بیکن ہائوس کا منافع 1.4 ارب ہے،پھرآپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسکول فیس میں حد لگانا بلا جواز ہے ، پہلے نجیسکول فیس میں8 سے 10 فیصد کمی کرنے کو تیار تھے، کیونکہ 5 فیصد سالانہ اضافے سے اسکول مالکان کو نقصان نہیں ہوتا لیکن اگریہ رکاوٹ ختم ہوئی تو مالکان 15 سے 20 فیصد سالانہ اضافہ کریں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ ماشاء اللہ نجی اسکولز اچھے خاصے پیسے کمارہے ہیں، کیانجی سکلولز اس معاملے کو عدالت لا کر مزید پیسہ کمانا چاہتے ہیں، اگراسکول منافع میں چل رہا ہو تو فیس میں اضافہ مناسب نہیں، چیف جسٹس کامزید کہناتھاکہ یہ نظرثانی کی درخواست ہے سوال یہ ہے جب 20 فیصد اضافے کو دیکھنا عدالت کا کام نہیں تو 8 فیصد اضافے کو دیکھنا کیسے عدالت کی ذمہ داری بن سکتی ہے تاہم عدالت سکول فیس کیس کا فیصلہ آرٹیکل 18 کے تحت ہی کرے گی، جو تجارت، انڈسٹری کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی متاثر کرے گا،اورقومی بجٹ پربھی اس کے اثرات پڑسکتے ہیں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دیکھنا ہو گا کہ عدالت آرٹیکل 18 میں کس حد تک مداخلت کر سکتی ہے، سماعت کے دوران بیکن ہائوس کے وکیل نے عدالت سے کہاکہ اگر تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے تو نجی سکولوں کو سبسڈی دی جائے،بیکن ہاؤس تواپنے 15 فیصد سے زائد طلبہ کو سکالرشپ دے رہا ہے، اوروہاں کے اساتذہ کی کم از کم تنخواہ ہائی کلاس کی فیس سے چار گنا سے زیادہ ہوتی ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آرٹیکل 25 اے کے تحت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، تاہم اس معاملے میںحکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو فروغ دے کر آوٹ سورس کیا، ہے اورنجی تعلیمی ادارے حکومت کے ساتھ تعلیم فراہمی میں شامل ہیں ، جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہاکہ اس مقصد میں شامل ہونے کے بعد حکومت کی ریگولیشن کی پابندی بھی کرنا ہوگی،سماعت کے دوران ایک اورنجی تعلیمی ادارے شہزاد الٓہٰی سٹی سکول کے وکیل نے عدالت کے سامنے موقف اپنایاکہ آرٹیکل 25 اے تعلیم کی بات کرتا ہے سستی تعلیم کی نہیں، اورفیس میں اضافے کا تعین انتظامیہ کا کام ہے،کیونکہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو بھی انتظامیہ کنٹرول کرتی ہے، اس موقع پرچیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نہیں کہتی کہ نجی اسکول منافع نہ کمائیں، لیکن فیس اضافے میں کوئی حد ہونی چاہیے، اورپرائیویٹ سکولوں کوریگولیٹشن پسند نہیں تووہ لائسنس نہ لیں اوراگرانہیں لائسنس چاہیے تو ریگولیشن کو بھی فالو کرنا ہوگا، بعدازاں عدالت نے فریقین کے وکلاء کو اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت آج جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی ۔