سابق وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کی جانب سے بغیر میرٹ نا اہل سات اہلکاروں سمیت11اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو سفارشی بنیادوں پر کوٹہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بھرتی کرایا گیا

ملک عارف مسعود ڈپٹی ڈائریکٹر لاء کی جملہ درخواستیں داخل دفتر کر دی گئیں 15سال گزرنے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں کیا جا سکا،خوش قسمت پرچی کنندگان میں شامل تھے

بدھ 8 مئی 2019 22:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 مئی2019ء) سابق وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کی جانب سے بغیر میرٹ نا اہل سات اہلکاروں سمیت11اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو سفارشی بنیادوں پر کوٹہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق ادوار میں بھرتی کرا لیا گیا ۔ ملک عارف مسعود ڈپٹی ڈائریکٹر لاء کی جملہ درخواستیں داخل دفتر کر دی گئیں 15سال گزرنے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں کیا جا سکا۔

خوش قسمت پرچی کنندگان میں شامل تھے، درخواست کے مطابق 2004میں بھرتی کئے گئے افراد میں ملک عطاء اللہ (سابقہ ڈائریکٹر فائر)، ملک اظہر خورشید(حالیہ ڈائریکٹر اڈمن) ، غلام شبّیر(حالیہ ڈائریکٹر اسٹیٹ مینجمنٹ -2)عبدالرؤف(حالیہ ڈائریکٹر اسٹاف برائے چیئرمین) ، کامران بخت(حالیہ ایڈیشنل ڈائریکٹر پارلیمنٹ لوجز) ، کاشف شاہ ( حالیہ ڈپٹی ڈائریکٹر ٹورازم)، تیمور احمد( حالیہ ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ) ، آصف علی خان(حالیہ ڈپٹی ڈائریکٹر کونفڈنشیل) ، اسد عبّاس(حالیہ ڈائریکٹر اسٹیٹ ایسٹ اور ویسٹ) ، وحید عبّاس بھٹی( حالیہ ڈپٹی ڈائریکٹر سینٹشین) اور دیگر شامل ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تمام لوگ آج ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کے عہدوں پر تعینات ہیں جب کے انکی بھرتی بطور اسسٹنٹ ایڈمن افسر گریڈ 16 وفاقی محتسب بالکل غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور ان سب نے سی ڈی اے بورڈ کو سابقہ ڈائریکٹر جنرل غلام مرتضیٰ بخاری کے ذریعے جو اس وقت ہیومن ریسورسز کے ڈائریکٹر تھے ، گمراہ کر کے اس معاملے کو داخل دفتر کر دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ غلام مرتضیٰ بخاری صاحب کی سمری بورڈ کو پیش کی گئی اور یہ سمری کیبنٹ کے ذریے وزیر اعظم کو بھجوانے کے بجائے سی ڈی اے آرڈیننس کی روشنی میں بورڈ کوبا اختیار گردانتے ہوے ایک نئی کلاس 09۔

4 سروس ریگولیشن 1992 میں انسرٹ کی گئی اور بغیر اشتہار جاری کئے فیصل صالح حیات نے ایکس پوسٹ فیکٹو پر غیر قانونی منظوری دے کر کوٹہ اور میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوے ان لاڈلوں کوایگزیکٹیو پوسٹوں پر بھرتی کر لیاگیا اوریہی غیر قانونی بھرتی کئے گئے افسران15سالوں میں ترقیاں بھی کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس سے قومی خزانے کو لاتلافی نقصان پہنچ رہا ہے ذرائع نے بتایا کہ غیر قانونی بھرتی کرانے والے مافیا کی جملہ بے ضابطگیوں اور انکے خلاف آواز اٹھانے پر ملک عارف مسعود جو دماغی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں،کو نشانہ بنا کر پہلے ڈمپنگ سائیڈ پر بھجوا دیا گیا اور اب لینڈ لیٹی گیشین بھجوایا گیا جہاں پر متاثرہ افیسر کی پوسٹ موجود ہی نہیں یاد رہے کے وفاقی محتسب کے فیصلہ کی روشنی میں مندرجہ بالا افسران کی بھرتی کی وزیر اعضم سے منظوری کو ضروری قرار دیا گیا ہے جس کی روشنی میں یہ تما م بھرتیاں غیر قانونی ہیں قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ یہ غیر قانونی بھرتیوں کا کیس متعدد بار تحقیقاتی اداروں ایف آئی اے ،نیب کو ارسال کیا گیا لیکن ملی بھگت کی نذر کر دیا گیا سوال یہ بھی ہے کہ ان پرچی پر بھرتی سفارشی حضرات کی بھرتی کو ایک کلاز 09۔

4 سروس ریگولیشنز 1992 میں متعارّف کیوں کرایا گیا اور اگریہ بھرتیاں جا اور قانونی تھیں ، تو تمام زیر التوا دیگر ملازمین کے معملات کو شقوں کے اندراج کے ذریے کیوں ریگولر نہیں کر لیا جاتا۔ عوامی حلقوں نے چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد ، وزیر داخلہ ، وزیر احتساب ، وفاقی محتسب ڈائریکٹر جنرل FIA اور چیئرمین Nab سے میرٹ پر انصاف کی استدا ہے ۔