قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ کے نصاب میں انسانی حقوق کا مضمون لازمی شامل کیا جائے، سینیٹر مشتاق احمد خان کا ایوان بالا کے اجلاس میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2017ء پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 9 مئی 2019 14:41

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ کے نصاب میں انسانی حقوق کا مضمون ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 مئی2019ء) ایوان بالا میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2017ء پر بحث کی گئی۔ یہ رپورٹ 22 جنوری 2019ء کو ایوان بالا میں پیش کی گئی تھی۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے رپورٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2017ء میں اہم ایشوز کو اٹھایا گیا ہے۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ لڑکیوں کی زبردستی شادی کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے، بچوں کو جیلوں میں بڑے قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے، بلوچستان کے حوالے سے کمیشن کو مزید کام کرنا چاہیے۔ گیان چند نے کہا کہ زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے خلاف موثر قانون اور کارروائی کی ضرورت ہے، مرضی سے مذہب تبدیل کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن ہمارے تحفظات بھی دور کئے جائیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ نبی کریم ؐ کا خطبہ حجة الوداع انسانی حقوق کی بہترین اور سب سے پرانی دستاویز ہے جس میں تفصیل سے انسانی حقوق کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی لڑکیوں کو چین لے جا کر استحصال کرنے کی خبریں آ رہی ہیں، ان کا نوٹس لیا جائے، جسمانی و ذہنی معذور بچے اور افراد، ٹرانس جینڈر طبقہ کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے، معاشرہ میں ان کی تذلیل ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ کے نصاب میں انسانی حقوق کا مضمون لازمی شامل کیا جائے، حکومت کی ترجیحات میں انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات سرفہرست ہونے چاہئیں۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کے قواعد کی تشکیل فوری طور پر کی جائے اور اس ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ارکان کی آراء کو بھی رپورٹ کا بنایا جائے۔

چائلڈ لیبر اور مزدوروں کے استحصال کے حوالے سے امور کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ سینیٹر اے رحمن ملک نے کہا کہ علی نواز چوہان قابل قدر شخصیت ہیں، انہوں نے قابل قدر کام کیا ہے، غیر قانونی ریکروٹنگ ایجنٹس کے خلاف قانون کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی سمگلنگ پر قابو پایا جا سکے، سائبر کرائمز کی 28 ہزار شکایات کے لئے 15 آفیسر ہیں، ان کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیر حراست ہلاکتوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ میں صوبوں اور کمیشن سے حاصل کئے گئے مستند اعداد و شمار ہونے چاہییں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ایبٹ آباد میں ایک لڑکی کو گاڑی میں جلا دیا گیا، ا س کا کوئی سراغ نہیں ملا، آج ہمارے معاشرے میں خواتین بہت مظلوم ہیں اور ان کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام نے انہیں دیئے ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بھی کچھ ہونا چاہیے، ہمارے خاندانی نظام نے ہمارے معاشرے کو بچا رکھا ہے۔