پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا

انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث مطلوبہ مریضوں کی تعداد کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے اہداف پورے نہ کر سکے

جمعہ 10 مئی 2019 21:40

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 مئی2019ء) پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ۔ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث مطلوبہ مریضوں کی تعداد کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے اہداف پورے نہ کر سکے ۔75ہزار ممکنہ مریضوں کی وجہ سے پنجاب میں ایڈز ایک وباء کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔

دو سالوں میں 5لاکھ 41ہزار مریضوں کے ٹارگٹ میں صرف27ہزار729افراد کے پروگرام نے اپروچ کیا ۔بیماری کے حوالے سے پروگرام کی طرف سے کوئی سرویلنس نہیں کی جا رہی ۔پروگرام انتظامیہ کی ناقص کارکردگی نے ایڈ ز کے مریضوںکی زندگیاں داو پر لگا دیں ۔چند ماہ قبل پنجاب ایڈزکنٹرول پروگرام نے سپریم کورٹ میں سب اچھا کی رپورٹ جمع کروائی۔

(جاری ہے)

حکومت کی اپنی ہی رپورٹ نے اس پروگرام کی کارکردگی کا پول کھول دیا ۔

روزنامہ 92نیوز کو حاصل ہونے والی سرکاری رپورٹ جس میں اس پروگرام کے اہداف کے حصول کے حوالے سے کارکردگی کا جائزہ لیا جس کے مطابق انجکشن کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والے افراد میں ایڈزتیزی سے زیادہ پھیل رہا ہے اور مالی سال 2016-17ء میں 25ہزار ایسے افراد کو رجسٹرڈ کرنا تھا تاکہ ان کے ٹیسٹ کیے جائیںلیکن صرف61افراد کو ہی اپروچ کیاگیا اور اس کام پرہی 2کروڑ5لاکھ 79ہزار روپے خرچ کر دیئے ۔

مالی سال 2017-18میں بھی 50ہزارنشہ کرنے والے افراد کا ہدف تھا لیکن صرف 337افراد کو ہی اپروچ کیا گیا اور پروگرا م ایسے افراد کو اپنی خدمات دینے میں بری طرح ناکام ہوا ۔اسی طرح خواتین سیکس ورکر بھی اس مرض کا شکار ہوتی ہیں اور مالی سال 2016-17ء میں25ہزار خواتین کا ٹارگٹ تھا لیکن صرف685کو ہی اپروچ کیا گیا اور اتنی کم تعداد خواتین پر 1کروڑ49لاکھ 20ہزار خرچ کر ڈالے ۔

مالی سال 2017-18ء میں میں 50ہزار خواتین کا ہدف تھا لیکن صرف1518خواتین کو اپروچ کیا گیا اور اس کام پر 4لاکھ 30ہزار خرچ کیے ۔میل سیکس ورکر مالی 2016-17ء میں 25ہزار کواپروچ کرنے کا ٹارگٹ تھا لیکن صرف1422سے رابط کیا اور اس پر ایک کروڑ9لاکھ 19ہزار خرچ کیے گئے ۔مالی سال 2017-18ء میں 50ہزار کا ٹارگٹ تھا لیکن صرف 896افراد سے رابطہ کیا اور اس پر 2لاکھ 8ہزار خرچ کیے ۔

ٹرک ڈرائیورزکے حوالے سے مالی سال 2016-17ء میں55ہزار کا ٹارگٹ رکھا گیا لیکن صرف14ہزار802ہی رجسٹرڈ ہوئے اور اس کام پر 2کروڑ92لاکھ 82ہزار خرچ کر ڈالے ۔مالی سال 2017-18ء میں 1لاکھ 10ہزار ٹرک ڈرائیورز کاعلاج کا ہدف تھا لیکن صرف 7ہزار455افراد سے رابطہ کیا اور 2کروڑ46لاکھ 31ہزار خرچ کیے گئے ۔ٹی بی کے مرض میں مبتلا مریضوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ ان کو ایڈز بھی لاحق ہو سکتا ہے اس لیے ان کی سکریننگ لازمی ہے اور مالی سال 2016-17ء میں د و لاکھ 10ہزارمریضوں کا ٹارگٹ رکھا لیکن صرف 254کے ہی ٹیسٹ کیے 4کروڑ46لاکھ 61ہزار خرچ کیے ۔

مالی سال 2017-18ء میں اس حوالے سے کوئی ٹارگٹ نہیں رکھا گیا ۔انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کو بیماریوں سے محفوظ کرنے کے لیے سرنجیں فراہم کرنے کا پروگرام تھا اور مالی سال 2016-17ء 25ہزار افراد کو رجسٹرڈ کرنا تھا لیکن بجٹ ہونے کے باوجودبھی اس حوالے سے کچھ نہیں کیاگیا ۔مالی سال 2017-18ء میں 50ہزار نشئیوں کو رجسٹرڈ کرنا تھا بجٹ ہونے کے باوجودبھی اس حوالے سے ذرا برابر کام نہیں ہوا ۔

بیماری کی سرویلنس کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پر بالکل بھی کام نہیں ہو رہا اور اس کے لیے دس کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا لیکن ان کو استعمال نہیں کیا گیا ۔اسی طرح دو سالوں میں 27نئے سنٹر ز قائم کیے جانے تھے لیکن صرف 6سنٹر ہی قائم کیے گئے 82لاکھ 19ہزار روپے خرچ کیے گئے ۔ایڈز کے مرض میں مبتلا مریضوں کے فلاح کے حوالے سے کوئی منصوبہ شرو ع نہیں کیا گیا ۔

ادویات اور کٹس کے استعمال کے حوالے سے ڈیٹا موثر نظام کے تحت جمع نہیں کیا گیا۔ اضلاع کی سطح پر کوئی لیبارٹری قائم نہیں کی گئی بلکہ تمام فنڈز لاہور میں لیبارٹری کی تعمیر پر لگا دیئے گئے لیکن اس لیب میں کام کرنے والے ملازمین کی استعداد کار نہیں بڑھائی گئی جس وجہ سے ان کو آلات چلانے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ ایک لیباٹری کے قیام کے حوالے سے 1کروڑ65لاکھ خرچ کیے گئے لیکن اس کی کوئی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

اخراجات کے حوالے سے رولز کو نذ ر انداز کیا گیا ۔ سنٹرز کی مانیٹرنگ بھی انتہائی ناقص ہے اورافسران ان کے دورے کم کرتے ہیں۔پروگرام میں پریونشن ، علاج اور ڈئیگناسٹک شعبے زبوں حالی کا شکار ہیںناقص کارکردگی کی وجہ سے یہ پروگرام ایڈز کے مریضوں کے لیے کوئی خاص کام نہیں کر رہا ۔اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصم الطاف نے کہا کہ پروگرام کی کارکردگی ان سے پہلے والی انتظامیہ کے دور میں کی ہے جب انہوں نے ا س پروگرم کا چارج سنبھالا تو کافی وقت خامیاں دور کرنے میں لگ گیا تاہم انہوں نے پروگرام میں کم اہداف حاصل کرنے کا اعتراف ضرور کیا ۔