سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس

ایف سی ہیڈ کواٹر کوئٹہ بلوچستان کے مختص بجٹ اور مالی سا ل 2019-20کے لئے تجویز کردہ بجٹ، ایف سی پشاور صوبہ خیبرپختونخوا کے مختص بجٹ اور مالی سال 2019-20کے لئے تجویز کردہ بجٹ سمیت مختلف معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعہ 10 مئی 2019 23:32

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 مئی2019ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورداخلہ کے اجلاس میں ایف سی ہیڈ کواٹر کوئٹہ بلوچستان کے مختص بجٹ اور مالی سا ل 2019-20کے لئے تجویز کردہ بجٹ،ایف سی پشاور صوبہ خیبرپختونخوا کے مختص بجٹ اور مالی سال 2019-20کے لئے تجویز کردہ بجٹ، سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے اسلام آباد کی عمارتوں اور پبلک پلیسز پر معذور افراد کے لئے سہولیات کے علاوہ سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر موبائل فونز کی چوری کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں داتا دربار دھماکے کی شدید مذمت کی گئی اور قیمتی جانوں کی ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے شہدا کے لئے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی گئی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا داتا دربار بم دھماکے میں ایلیٹ فورس کے اہلکاروں و دیگر بیگناہ افراد کی شہادت پر دلی دکھ و افسوس ہواہے۔

لاہور میں مبینہ خودکش حملہ انتہائی تشویش ناک ہے، تحقیقات کی جائے۔لگتا ہے پاکستان دشمن عناصر پھر سے متحرک ہوچکے ہیں ۔کمیٹی نے داتا درباردھماکے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اورقیمتی جانوں کی ضیاع پر گہرے دکھ و افسوس کا اظہار کیا گیا قرارداد میں شہید ہونے والے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور حکومت سے داتا دربار دھماکے میں ملوث دھشتگرد، سہولت کار و نیٹ ورک بے نقاب کرنے پر زور دیا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیاکہ سیکیورٹی صورتحال پر نیکٹا، چاروں انسپیکٹرجنرلز‘ ھوم سیکرٹریز اور سیکرٹری دفاع سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی جائے گی۔ ڈی آئی جی ایف سی ہیڈ کواٹر بلوچستان نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2019-20کے لئے 41.8ارب روپے کی تجویز دی گئی اور صرف 17.03ارب روپے منظور ہوئے ۔گزشتہ برس 39.22 ارب کی تجویز دی گئی اور 15.45ارب روپے منظور کئے گئے ۔

رواں مالی سال کے دوران طلب سے 59 فیصد کم بجٹ دیا گیا۔ بجٹ میں کمی کے باعث فورس کا آپریشن متاثر ہوتا ہے۔گاڑیوں سمیت دیگر ساز و سامان کی خریداری میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔بارڈر پر باڑ لگانے کی جو ذمہ داری دی گئی اس کے لئے بھی 15.6ارب روپے درکار ہیں۔جوانوں کی پروموشن اور مراعات بھی دیگر فورسز سے کم ہیں۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بنائے گئے نئے ونگز کے بقایاجات بھی نہیں دیے گئے۔

کمیٹی کے ارکان نے ایف سی بلوچستان کو ضرورت سے کم بجٹ دینے پر تشویش کا اظہارکیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اداروں کو مطلوبہ بجٹ فراہم کرنا ہمارا فرض ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ بلوچستان میں بسوں سے اٴْتار کر نیوی کے لوگوں کو شہیدکرنے والے تمام دہشت گرد ایران سے نہیں آئے تھے 15میں سے 12مقامی حملہ اور بھی شامل تھے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل جاری ہے جو تین سے چار سال تک مکمل کر لیا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا گزشتہ دو ہفتوں کے دوران انٹیلی جنس معلومات پر کارروائیاں کی گئی ہیں اور کئی بڑے دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایف سی بلوچستان کی ملکی خدمات و قربانیوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایف سی بلوچستان ساؤتھ و نارتھ دونوں کی قربانیاں باقی اداروں سے زیادہ ہیں‘ کوشش ہوگی کہ ایف سی بلوچستان کی مالیاتی مسائل کو کم سے کم کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بہت سے جرائم کے پیچھے بھارتی ایجنسی راء ملوث ہے۔وزیراعظم مودی نے کھلے الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو بلوچستان میں سبق دی جائیگی۔چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر رانا مقبول احمد کے زیر صدارت ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو وزارت خزانہ،وزارت پلاننگ، ایف سی ہیڈ کواٹر کوئٹہ اور ایف سی ہیڈ کواٹر خیبر پختونخوا کے ساتھ مل کر بجٹ کے حوالے سے سفارشات تیار کر کے کمیٹی کو فراہم کر ے گی۔

ذیلی کمیٹی میں سینیٹر ز کلثوم پروین اور سردار محمد شفیق ترین کو شامل کیا گیا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزات داخلہ میں ایک میڈیا سیل قائم کیا جائے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگیوں اور کامیابیوں کی تشہیر کے لئے کام کرے۔ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاک ایران بارڈر پر انسانی اسمگلنگ بہت زیادہ ہے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا ‘ 909کلومیٹر پاک ایران بارڈر ہے لورالائی میں دہشت گردوں کے ہیڈکواٹر کو تباہ کیا مگر میڈیا نے کچھ نہیں چلایا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سمگل کئے جانے والے سات ہزار افراد کو پکڑکر واپس لائے ایک پیکج میں تین دفعہ بندے کو باہر بھیجنے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں 7لاکھ لیٹر ڈیزل کو پکڑ کر کسٹم کے حوالے کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین سے چار سو لوگ بلوچستان کے پہاڑوں کے نالوں میں چھپے ہوئے ہیں جو دہشت گردی کے کاموں میں ملوث ہیں اٴْن کے لیڈر اٴْن کو بیرون ممالک سے کنٹرول کرتے ہیں۔

ہم انٹیلجنس کی خبر پر ریڈ کرتے ہیں۔ پرامن بلوچستان پروگرام میں اٴْن کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بلوچستان کا 10فیصد ایر یا A اور 90فیصد ایریا B پر مشتمل ہے جس کو ایف سی کنٹرول کرتی ہے۔گزشتہ چھ ماہ میں تیس لاکھ لیٹرڈیزل پکڑ کر کسٹم کے حوالے کیا۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے صفوت غیور شہید اور ایف سی کے دیگر شہدائ کی مغفرت کیلئے دعا کرتے ہوئے شہید کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

آئی جی ایف سی پشاور صوبہ خیبر پختونخوا نے قائمہ کمیٹی کو بجٹ بارے تفصیلی آگاہ کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف سی1913میں قائم کی گئی تھی جوصوبہ خیبر پختونخوا کے 17اضلاع میں خدمات انجام دے رہی ہے جن میں سے 8پاکستان بننے سے پہلے اور 9بعد کے اضلاع شامل ہیں۔ایف سی فاٹا کے 7نئے اضلاع میں بھی خدمات سرانجام دے گی۔ ایف سی کے 361لوگ شہادت حاصل کر چکے ہیں ایف سی پاکستان آرمی، ڈپلومیٹک مشن، پولیو ٹیم کی سیکورٹی، عدلیہ اور جیلوں کی سیکورٹی، کے پی کے اور جی بی کے سی پیک کے منصوبوں کے علاوہ این ایچ اے کے منصوبوں پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔

142ایف سی پلاٹون آرمی کی مدد کر رہے ہیں جبکہ 40 پلاٹون کے پی کے کی مدد کر رہے ہیں۔ایف سی کی کل 597پلاٹون ہیں جس میں 27ہزار اہلکار ہیں جن میں سے 2ہزار سٹاف بھی ہے۔ ادارے کا بجٹ 8.9ارب روپے ہے جس میں سے 8.4ارب تنخواہوں پر خرچ ہو جا تا ہے۔36پلاٹون ایسی بھی ہیں جن میں ریٹائرڈ ایف سی اہلکار شامل کئے گئے ہیں جو مختلف کمپنیوں میں سیکورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

ایک جوان پر سالانہ تین لاکھ اور ماہانہ 25ہزار خرچ ہوتا ہے جس پر چیئرمین اور ارکین کمیٹی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فورسز جو ہمارے تحفظ کے لئے اپنی جانے تک قربان کردیتے ہیں اٴْن کی تنخواہیں اور مراعات نہ ہونے کے برابر ہے۔ قائمہ کمیٹی داخلہ نے ایف سی کے شہید کے لئے ایک کروڑ امداد اور ایف سی اہلکار کی تنخواہ پولیس اہلکار کے برابر کرنے کی سفارش کر دی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہیں برابر ہونی چاہئے۔قائمہ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو معاملات کا جائزہ لے کر رپورٹ فراہم کرے گی۔ ذیلی کمیٹی میں ڈاکٹر شہزاد وسیم اور کلثوم پروین کو شامل کیا گیا۔

سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے معاملے کے حوالے سے ایس ایس پی فیصل آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ چوری کے سات ملزمان تھے جس میں سے چار کو گرفتار کیا گیا تین گرفتار نہیں ہو سکے جسکی وجہ سے ٹرائل نہیں ہو سکا۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے چار ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع کرنے اور بقیہ کو جلد سے جلد گرفتار کرنے اور کسٹم حکام کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی لڑکیوں سے چین کے لڑکوں کی شادی کے حوالے سے آنے والی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میڈیا میں آیا ہے کہ چینی نوجوان پاکستانی لڑکیوں کو شادی کے بعد جسم فروشی پر مجبور کرتے ہیں اور اٴْن کے اعضاء نکالے گئے ہیں‘ میں نے ایف آئی اے کو دو خطوط لکھے آج صبح ایف آئی حکام نے بریف کیا کہ 90فیصد لڑکیاں عیسائی اور 10فیصد مسلمان ہیں۔

لاہور میں تین گھر کرائے پر لئے گئے تھے گزشتہ سال بھی 256لڑکیاں بھیجی گئی تھی۔ چین کے سفارتخانے نے اسکا سخت نوٹس لیا ہے۔رحمان ملک نے کہا کہ سی پیک منصوبوں پر مختلف طریقوں سے حملے کیئے جا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ایک سازش کے تحت کیا جا رہا ہو۔ چیئرمین کمیٹی نے اس حوالے سے وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی۔کمیٹی کے کے اجلاس میں سینیٹرز کلثوم پروین، محمد جاوید عباسی، میاں محمد عتیق شیخ، رانا مقبول احمد، محمد طلحہ محمود، سردار محمد شفیق ترین اور ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ سپیشل سیکرٹری داخلہ میاں وحیدالدین، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سکندر قیوم،کمانڈر ایف سی کے پی کے، ڈی آئی جی ایف سی بلوچستان، ایس ایس پی فیصل آباد، ڈی سی اسلام آباد اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔