اگر چھبیسویں آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا جا سکتا ہے تو میثاق معیشت بھی منظور کیا جا سکتا ہے

اہم ایشوز اور سیکیورٹی کے معاملات پر اپوزیشن اور حکومت کو ایک صفہ پر ہوجانا چاہیے،حامد میر کا مشورہ

Sajjad Qadir سجاد قادر منگل 14 مئی 2019 07:00

اگر چھبیسویں آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا جا سکتا ہے تو میثاق ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 مئی2019ء)   گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اہم پیش رفت ہوئی جس میں فاٹا کے علاقے کو اختیارات اور اس کے مفادات سامنے رکھتے ہوئے چھبیسویں آئینی ترمیم پیش کی گئی۔اس آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کواس کے حقوق دیے جائیں گے اور وہیں کے لوگ اپنے علاقے کی نمائندگی کر پائیں گے۔ اس آئینی ترمیم کو اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومت اور سبھی سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے تاریخ ریکارڈ کر ڈالی۔

مگر اس آئینی ترمیم کو لے کر سینئر صحافی حامد میر نے جہاں حکومت پر تنقید کی وہیں مفید مشورہ بھی دے ڈالا۔نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھاکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ بغیر کسی مزاحمت اور تنقید کے آئین میں چھبیسویں تبدیلی لائی گئی مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسی طرح خاموشی اور متفقہ رائے سے میثاق جمہوریت اور سیکیورٹی کے معاملات پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر آ جاتے۔

(جاری ہے)

ان کاکہنا تھا کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر کسی کو بھی اپنی سیاست نہیں چمکانی چاہیے بلکہ مل کر ملک و قوم کے لیے آواز بند کرنی چاہیے۔حامد میر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس وقت ملکی معیشت زبوں حالی کی شکار ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام سے غریب آدمی کے لیے جہاں مسائل پیدا ہوں گے وہاں حکومت کے لیے بھی مشکلات کچھ کم نہیں ہوں گی۔اس لیے حکومت کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معیشت کے معاملے پر میثاق جمہوریت کرنا چاہیے اور سیکیورٹی خدشات کولے کر کسی کو بھی سایسی پوائنٹ سکیورنگ نہیں رنی چاہیے۔

اگر سیکیورٹی اور معاشی صورت حال کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آ جاتے ہیں تو حکومت کے بہت سارے معاملات خود بخود بہتر ہو جائیں گے اور ملک و قوم کے معاملات بھی بہتری اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو پڑیں گے۔