ایران نے امریکا کے خلاف کوئی حرکت کی تو یہ بڑی غلطی ہوگی: ڈونلڈ ٹرمپ

تہران میں رجیم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکی مفادات یا شہریوں کے خلاف اس کے یا اس کے کسی گماشتہ گروپ کے حملے پر فوری اور فیصلہ کن ردعمل ظاہر کیا جائے گا، امریکی صدر

منگل 14 مئی 2019 22:06

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مئی2019ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو اس کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ وائٹ ہاس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران جو کچھ کرتا ہے،اس کو ملاحظہ کریں گے۔اگر وہ ( ایرانی) کچھ کرتے ہیں ، تو یہ ان کی بڑی سنگین غلطی ہوگی۔

اگر وہ عملاکچھ کرتے ہیں تو انھیں اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔امریکی صدر کے اس سخت بیان سے قبل خلیج کے پانیوں میں ایک انہونا واقعہ پیش آیا ہے اور متحدہ عرب امارات نے امارت فجیرہ کے نزدیک خلیج عمان میں آبنائے ہرمز کے دوسری جانب چار تجارتی بحری جہازوں پر تخریب کاری کے حملے کی اطلاع دی ہے۔ان میں دو تیل بردار جہاز سعودی عرب کے تھے اور ایک ، ایک یو اے ای اور ناروے کا تھا۔

(جاری ہے)

ایران نے تخریب کاری کے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے اور اس کی وزارت خارجہ نے واقعے کی مزید وضاحت کے لیے کہا ہے۔صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر ایران نے کوئی حملہ کیا تو اس کے جواب میں امریکا فوری اور فیصلہ کن ردعمل ظاہر کرے گا۔انھوں نے کہا کہ تہران میں رجیم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکی مفادات یا شہریوں کے خلاف اس کے یا اس کے کسی گماشتہ گروپ کے حملے پر فوری اور فیصلہ کن ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی دھمکیوں اور پریشان کن اشاروں کے ردِعمل میں انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر اپنا ایک اور طیارہ بردار بحری بیڑا ابراہام لنکن مشرقِ اوسط میں لنگر انداز کردیا ہے۔اس کے علاوہ امریکا نے بی 52 لڑاکا طیارے بھی خطے میں بھیجے ہیں اور انھیں ایران کے خلاف کسی مسلح محاذ آرائی کی صورت میں تباہ کن بمباری کے لیے ا ستعمال کیا جاسکتا ہے۔

دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنا ماسکو کا دورہ منسوخ کردیا ہے اور وہ سوموار کو اس کے بجائے برسلز چلے گئے ہیں۔جہاں وہ ایران کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں اور اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اپنے یورپی اتحادیوں اور نیٹو حکام کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں گے اور انھیں خطے میں ہونے والی تازہ پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔