سینیٹر محمد جاوید عباسی کے زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس

وفاقی ترقیاتی ادارے کے قانون میں ترمیم کا بل 2019اور سینیٹر محمد جاوید عباسی کی آئین کی شق 198میں ترمیم سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2019پر تفصیلی بحث ،کمیٹی نے بعض ترامیم کے ساتھ سینیٹر جاوید عباسی کے بل کی منظوری دے دی

جمعرات 16 مئی 2019 19:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں قانون سازی کے مختلف مسودوں کو زیر غور لایا گیا اور اس پر متعلقہ وزارتوں اور حکام سے رائے لی گئی۔ آج کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019کے علاوہ سینیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کردہ غیر ملکی معاہدوں کی پارلیمان کے ذریعے توسیع کا بل 2018، آرٹیکل 27سے متعلق آئینی ترمیمی بل ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشنزکی جانب سے بھیجے گئے انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا بل 2018،سینیٹر سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کیاگیا آئینی ترمیمی بل ، سینیٹر محسن عزیزکے اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ریگولیشن اینڈڈویلپمنٹ بل 2018، سینیٹر رحمان ملک کے وفاقی ترقیاتی ادارے کے قانون میں ترمیم کا بل 2019اور سینیٹر محمد جاوید عباسی کی آئین کی شق 198میں ترمیم سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2019پر تفصیلی بحث ہوئی علاوہ ازیں سینیٹر مشاہد اللہ خان کی جانب سے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ملازمین سے متعلق عوامی اہمیت کے مسئلے کو بھی زیر غور لایا گیا ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی نے آئین کے آرٹیکل 198میں ترمیم کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل 2019کے اغراض ومقاصد کمیٹی کے سامنے پیش کئے اور کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور دیگر دوسری وجوہ کی بنیاد پر ہائی کورٹس پر مقدمات کا دبائو بڑھ رہا ہے اورمقدمات میں تاخیر ہو رہی ہے اسی طرح دور دراز علاقوں سے فریقین اور وکلا ء کو مقدمات کیلئے دوردارز کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد فریقین اور وکلاء برادری کو ریلیف فراہم کرنا ہے تاکہ ہائی کورٹ کے بنچز کی تعداد بڑھائی جائے تاہم اس سلسلے میں آئینی ترمیم درکار ہو گی جس کے لئے یہ بل انہوں نے پیش کیا ہے۔کمیٹی نے بعض ترامیم کے ساتھ سینیٹر جاوید عباسی کے بل کی منظوری دے دی ۔سینیٹرمحمد جاوید عباسی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 198 میں ترمیم کیلئے آئینی ترمیمی بل 2019 پر بحث کے وقت کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کی ۔

خیبر پختونخواہ میں قبائلی علاقہ جات کے ضم ہونے کے بعد اب بنچز بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح باقی صوبوں میں ان کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے آبادی بہت بڑھ گئی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ پورے پاکستان میں بنچز بنائے جائیں ۔ سینیٹر ثناء جمالی نے کہا کہ تربت اور سبی میں بنچز مہینے میں ایک مرتبہ مقدمات کی سماعت کرتے ہیں ۔ ایک مناسب لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔

کمیٹی نے اس موقع پر سفارش کی کہ وزارت قانون چاروں صوبوں میں ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھائے ۔بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے بنچوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے سینیٹر جاوید عباسی کے ترمیمی بل اور موجودہ بنچوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے ضمن میں کمیٹی کی سفارش کو سراہا اور کہا کہ یہ بار ایسوسی ایشنز کے دیرینہ مطالبات تھے انہوں نے سینیٹر جاوید عباسی اور کمیٹی کے اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ کمیٹی نے ان کی خواہش کے مطابق بنچز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ترمیم کی منظوری دی اور ساتھ ہی موجودہ بنچز میںججوںتعداد بڑھانے کے حوالے سے سفارش بھی کی ۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان کی جانب سے ایوان میں پیش کئے گئے عوامی اہمیت کے مسئلے پر کمیٹی نے اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا ۔انہوں نے کہا کہ انشورنس کارپوریشن ایک منافع بخش ادارہ ہے اور اسکے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روز گار جڑا ہوا ہے تاہم موجودہ انتظامیہ نے بعض ایسے فیصلے کئے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ملازمین کو بے روزگار کیا جا رہا ہے بلکہ دوسری طرف ادارے کے منافع پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لہذا اس صورتحال کے پیش نظر حکومت کو چاہئے کہ وہ اسٹیٹ لائف سے متعلق اپنی پالیسی پر فوری نظرثانی کرے تاکہ ادارے کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہاکہ اجلاس اہم ہے اس کے باوجود وزیر غیر حاضر ہیں ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد تھوڑی ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ یہ مطالبہ کئی حلقوں کی طرف سے کیا گیا ۔اس مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل 2019 کی منظوری دی ۔ کمیٹی نے کہا کہ ججز صرف اسلام آباد کے وکلا میںسے ہی ہونے چاہیں لیکن حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں ایک ترمیمی بل جلد از جلد پیش کرے ۔

سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہاکہ پیوند کاری کا بل کمیٹی میں زیر بحث آیا تھا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی یہی ہے ۔ ہیلتھ کمیٹی نے اس کو پاس کیا تھا۔ لیکن ہائوس نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کے لئے اسے کمیٹی کے پاس بھیج دیا تھا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے نے کہا کہ اعضاء کا عطیہ کرنا جائز ہے ۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کا پہلے ہی فیصلہ موجود ہے ۔

تاہم کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نادرا کی رائے لینے اور بل میں بہتری لانے کیلئے ضروری ہے کہ اگلے اجلاس میں زیر بحث لایا جائے ۔ سینیٹر سراج الحق نے آئینی ترمیمی بل کے حوالے سے کمیٹی نے کہاکہ اس بل پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اس بل کو واپس لے لیں اور نیا بل لے کر آئیں تاکہ کمیٹی اس کو زیر بحث لا سکے ۔ اسلام آبا د رئیل اسٹیٹ (ریگولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ)ترمیمی بل پر بھی تفصیلی غور کیا گیا ۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس بل پر متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے رائے لینے کی ضرورت ہے ۔ کمیٹی نے بل کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے بل پر مزید بحث اگلے اجلاس تک موخر کر دی ۔سٹیٹ لائف فیلڈ ورکز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ سٹیٹ لائف ایک منافع بخش ادارہ تھا ۔ فیلڈورکز کی انتھک محنت کے باعث ادارے نے اربوں روپے کمائے ۔ وزارت کامرس نے بتایا کہ سٹیٹ لائف کاایک خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹر ہے ۔

بورڈ نے ریسٹرکچرنگ کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ بورڈ نے یک طرفہ فیصلہ کیوں کیا ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ لائف نے کہا کہ ایس ای سی پی کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہم نے اپنے اخراجات کم کرنے تھے ۔ جس کے تحت بورڈ نے اصلاحاتی اقدامات اٹھائے ۔ کمیٹی نے تحریری طور پر سٹیٹ لائف فیلڈورکز ایسوسی ایشن سے مطالبات اور متعلقہ وزارت سے جواب طلب کر لیا۔

سینیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کردہ غیر ملکی معاہدوں کی پارلیمان کے ذریعے توسیع کا بل 2018، آرٹیکل 27سے متعلق آئینی ترمیمی بل پر بحث محرک کے عدم شرکت کے باعث اگلے اجلاس کیلئے موخر کر دی گئی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل2019 کی منظوری دے دی گئی ۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فاروق ایچ نائیک، سراج الحق، محمد علی خان سیف ، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی ، مصطفی نواز کھوکھر،ثناء جمالی ، ستارہ ایاز، رحمان ملک، میاں محمد عتیق شیخ اور سینیٹر ہدایت اللہ کے علاوہ وزارت قانون و انصاف ، بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں ، وزارت کامرس ،سٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی ۔